Daler Mujrim Book Online Read


Daler Mujrim Read Urdu Book by Jasoosi Dunia Urdu Jasoosi Adab ke pahlay or munfarid kirdar Colonel Faridi (who was Inspector in initial stories) or Captain Hameed (who was sergeant in initial stories) ka pahla karnama. Urdu Jasoosi Adab ke bani or azeem musannif Ibn-e-Safi ke shareer qalam se aik hasti muskurati, pur tajassus tehreer. Title of this books is "Daler Mujrim". The first novel of Jasoosy Dunya by Ibn Safi. The most papular spy fiction seires of novels in Urdu language in Pakistan.

دلیر مُجرم

(ابنِ صفی)
        
”مجھے جانا ہی پڑے گا مامی“ ڈاکٹر شوکت نے کمرے میںداخل ہوتے ہوئے اوور کوٹ کی دوسری آستین میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔
”ایشور تمہاری رکھشا کرے اور اس کے سوا میں کہہ ہی کیا سکتی ہوں۔“ بوڑھی سیتا دیوی بولیں۔ ”لیکن سر میں اچھی طرح مفلر لپیٹلو۔ سردی بہت ہے۔“
”مامی“ ڈاکٹر شوکت بچکانے انداز میں بولا۔” آپ تومجھے بچہ بنائے دے رہی ہیں مفلر سر میں لپیٹ لوں! ہا ہا ہا۔“
” اچھا بوڑھے میاں جو تمہارا جی چاہے کرو۔“ سیتا دیوی منہ پھلا کر بولیں ۔”مگر میں کہتی ہوں یہ کیسا کام ہوگیا نہ دن چین نہ رات چین ۔ آج آپریشن ، کل آپریشن۔“
” میں اپنی اچھی مامی کو کس طرح سمجھاﺅں کہ ڈاکٹر خود آرام کرنے کیلئے نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے ہوتاہے۔“
” میں نے تو آج خاص طور سے میکرونی تیار کرائی تھی۔کیارات کا کھانا بھی شہر ہی میں کھاﺅگے۔“ سیتا دیوی بولیں ۔
” کیا کروں مجبوری ہے۔ اس وقت سات بجے رہے ہیں۔ نو بجے رات کو آپریشن ہوگا، کیس ذرا نازک ہے ابھی جاکر تیاری کرنی ہوگی اچھا خدا خافظ۔“
ڈاکٹر شوکت اپنی چھوٹی سی خوبصورت کار میں بیٹھ کر شہر کی طرف روانہ ہوگیا وہ سول ہسپتال میں اسسٹنٹ سرجن کی حےثیت سے کا م کر رہا تھا ۔ دماغ کے آپریشن کا ماہر ہونے کی حےثیت سے اس کی شہرت دور دور تک تھی۔ حالانکہ ابھی اس کی عمر کچھ ایسی نہ تھی وہ چوبیس پچیس برس کا ایک خوبصورت اور وجیہہ نوجوان تھا۔ اپنی عادت واطوار اور سلیقہ مندی کی بنا پر وہ سو سائٹی میں عزت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔قربانی کا جذبہ تو اس کی فطرت ثانیہ بن گیا تھا۔ آج کا آپریشن وہ کل پر بھی ٹال سکتا تھا لیکن اس کے ضمیر نے گوراہ نہ کیا۔
سیتا دیوی اکثر اس کی بھاگ دوڑ پر جھلابھی جایا کرتی تھیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی طرح پالا تھا۔ وہ ہندو دھرم کی ماننے والی ایک بلند کردار خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنی دم توڑتی سہیلی جعفری خانم سے جو وعدہ کیاتھا اسے آج تک نبھائے جا رہی تھیں۔ انہوں نے ان کے بیٹے کو ان کی وصیت کے مطابق ڈاکٹری کی اعلاتعلیم دلا کر اس قابل کر دیا تھا وہ آج سارے ملک میں اچھی خاصی شہرت رکھتا تھا۔ اگر چہ شوکت کے والدہ اس کی تعلیم کے لئے معقول رقم چھوڑکر مری تھیں۔ لیکن کسی دوسرے کے بچے کو پالنا آسان کام نہیں اور پھر بچہ بھی ایساجس کا تعلق غیر مذہب سے ہو اگر وہ چاہتیں تواسے اپنے مذہب پر چلا سکتی تھیں لیکن ان کی نیک نیتی نے اسے گوراہ نہ کیا۔ دنیا وی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس کی دینی تعلیم کابھی معقول انتظام کیاتھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نوجوان ہونے پربھی شوکت علی ہی بنا رہا۔ سیتا دیوی کی برادری کے لوگوں نے ایک مسلمان کے ساتھ رہنے کی بناءپر ان کا بائیکاٹ کر رکھاتھا مگر وہ اپنے مذہب کی پوری طرح پابند تھیںاور شوکت کو اس کے مذہبی احکام کی تعمیل کے لئے مجبور کرتی رہتی تھیں۔ وہ ڈاکٹر شوکت کے اور ایک ملازمہ کے ساتھ نشاط نگر نامی قصبہ میںرہ رہی تھیں۔ جو شہر سے پانچ میل کی دوری پر واقع تھا۔ یہ ان کی اپنی ذاتی کوٹھی تھی۔ وہ جوانی ہی میں بیوہ ہوگئی تھیں ۔ان کے شو ہر اچھی خاصی جائیداد کے مالک تھے جوکسی قریبی عزیز کے نہ ہونے کی بنا ءپر پوری کی پوی انہیں کے حصے میں آئی تھی۔
ڈاکٹر شوکت کے چلے جانے کے بعد انہوںنے ملازمہ سے کہا۔ ” میرے کمرے میں قندیل مت جلانا۔ میں آج شوکت کے کمرے میں سو ﺅں گی۔ وہ آج رات بھر تھکتا رہے گا میں نہیں چاہتی کہ جب وہ صبح کو آئے تو اپنے بستر کو برف کی طرح ٹھنڈا اور یخ پائے جاﺅ جاکر اس کا بستر بچھادو۔“
نو جواں خادمہ انہیں حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔ آج پہلی بار اس نے اس قسم کی گفتگو کرتے سناتھا۔ جو پر معنی بھی تھی اور مضحکہ خیز بھی ۔ وہ کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ پھراسے ایک مامتا بھرے دل کی جھلک سمجھ کر خاموش ہو رہی۔
”کیا سوچ رہی ہو۔“ سیتا دیوی بولیں!
” تو کیاآج رات ہم تنہا رہیں گے؟ “ خادمہ اپنی آواز دھیمی کرکے بولی۔” وہ شخص آج پھر آیا تھا۔“
”کون شخص؟“
” میں نہیں جانتی کہ و ہ کون ہے لیکن میںنے کل رات کو بھی اس کو باغ میں چھپ کر چلتے دیکھا تھا۔ کل تو میں سمجھی تھی کہ شاید و ہ کوئی راستہ بھولا ہو ا راہگیر ہوگا مگر آج چھ بجے کے قریب وہ پھر دکھائی دیا تھا۔“
” اچھا“ سیتا دیوی سوچ کر بولیں ۔” وہ شاید ہماری مرغیوں کی تاک میں ہے میں صبح ہی تھانے کے دیوان سے کہوں گی،“
سیتا دیوی نے یہ کہہ کر اس کو اطمینان دلا دیا۔ لیکن خود الجھن میں پڑ گئیں۔ آخر یہ پر اسرار آدمی ان کی کو ٹھی کے گرد کیوں منڈلاتا رہتا ہے۔ انہیں اپنے مذہبی ٹھیکیداروںکی دھمکی اچھی طرح یاد تھی۔ لیکن اتنے عرصے کے بعد ان کی طرف سے بھی کوئی خطرناک اقدام کوئی خاص معنی نہ رکھتا تھا۔اس قسم کی نہ جانے کتنی گتھیاں ان کے ذہن میں رینگتی تھیں۔ آخر کار تھک ہار کر تسکین قلب کے لئے انہیں اپنے پہلے خیال کی طرف لوٹ آنا پڑا۔ ےعنی وہ شخص کوئی معمولی چور تھا جسے ان کی مرغیا ں پسند آگئیں تھیں جیسے ہی تھانے کے گھنٹے نے دس بجائے وہ سونے کےلئے ڈاکٹر شوکت کے کمرے میں چلی گئیں، انہوں نے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا ۔
خادمہ انکی افتاد طبع سے واقف تھی۔ اس لئے اس نے زیادہ اصراربھی نہیں کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی سونے کے لئے کمرے میں چلی گئی وہ لیٹنے ہی والی تھی کہ اس نے صدر دروازے کو دھماکے کے ساتھ بند ہوتے سنا۔ اسے خیال پیدا ہوا کہ ڈاکٹر شوکت خلاف توقع واپس آگیا ہے۔ وہ برآمدے میں نکل آئی۔ باغ میں سیتا دیوی کی غصیلی آواز سنائی د ی ۔ وہ کسی مرد سے تیز لہجے میں بات کر رہی تھیں۔ وہ حیرت سے سننے لگی ۔ وہ ابھی باہر جانے کا ارادہ ہی کر رہی تھی کہ سیتا دیوی بڑبڑاتی ہوئی آتیں دکھائی دیں۔
”تم “ وہ بولیں۔ ” ارے لڑکی تو کیوں اپنی جان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اس سردی میں بغیر کمبل اوڑھے باہر نکل آئی ہے نہ جانے کیسی ہیں آج کل کی لڑکیاں ۔“
” کون تھا۔ “ خادمہ نے ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے پوچھا۔
” وہی آدمی تو نہیں تھا۔“ خادمہ نے خوفزدہ ہو کر پوچھا۔
” نہیں وہ نہیں تھا۔سردی بہت ہے صبح بتاﺅں گی اچھا اب جاﺅ۔“
خادمہ متحیرہوتی چلی گئی ۔ ہرچند اس واقعہ کی کوئی اہمیت نہ رہی ہو۔ لیکن یہ اسے حد درجہ پر اسرار معلوم ہو رہاتھا تھوڑی دیر کے بعد وہ خراٹے لینے لگی۔
دوسرے دن صبح آٹھ بجے جب ڈاکٹر شوکت واپس آیا تو اس نے ملازمہ کو حد درجہ پریشانی اور سراسیمگی کی حالت میں پایا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سیتا دیوی خلاف معمول ابھی سو رہی ہیں۔ حالانکہ ان کا روزانہ کا معمول تھا کہ صبح تقریباً پانچ ہی بجے سے اٹھ کر پوجا پاٹھ کے انتظام میں مشغول ہوجایا کرتی تھیں۔ شوکت کوبھی اس واقعہ سے تشویش ہو گئی ۔لیکن اس نے سوچا کہ شاید رات میںزیادہ دیر تک جاگی ہوں گی۔
اس نے ملازمہ کو اطمینان دلا کر ناشتہ لانے کو کہا۔نو بج گئے لیکن سیتا دیوی نہ اٹھیں۔ اب شوکت کی پریشانی حد سے زیادہ بڑھ گئی۔اس نے دروازہ پیٹنا شروع کیا۔ لیکن بے سود اندر سے کوئی جواب نہ ملا ۔ تھک ہار کر اس نے ایک بڑھئی کو بلوایا۔
دروازہ ٹوٹتے ہی اس کی چیخ نکل گئی۔
سیتا دیوی سر سے پاﺅں تک کمبل اوڑھے چت لیٹی ہوئی تھیں اور ان کے سینے میں ایک خنجر اس طرح پیوست تھا کہ صرف ایک دستہ نظر آرہاتھا۔ بستر خون سے تر تھا۔
ڈاکٹر شوکت ایک مظبوط دل کا آدمی ہوتے ہوئے بھی تھوڑی دیر کے لئے بیہوش سا ہوگیا۔ ہوش آتے ہی وہ بچوں کی طرح سسکیاں لیتا ہوا زمین پر گر پڑا۔
سارے گھر میں ایک عجیب سی ماتمی فضا طاری تھی۔ قصبہ کے تھانے پر اطلاع ہوگئی تھی اور اس وقت ایک انسپکٹر اور دو ہیڈ کانسٹیبل مقتولہ کے کمرے کے سامنے بیٹھے سر گوشیاں کر رہے تھے۔ خادمہ کے بیان پر انہوں نے اپنی تفتیش کے گھوڑے دوڑانے شروع کر دئےے تھے۔ ان کے خیال میں وہی پر اسرار آدمی قاتل تھاجو رات کو باغ میںٹہلتا ہوا پایا گیاتھااور سیتا دیوی رات میں اسی سے جھگڑا کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر شوکت انکی بحثوں سے قطعی غیر مطمئن تھا۔ جیسے جیسے وہ اپنی تجربہ کاری کا اظہار کر رہے تھے اس کا غصہ بھی بڑھتا جارہاتھا ویسے بھی وہ اپنے قصبہ کی پولیس کو ناکارہ سمجھتا تھا۔ اسی لئے اس نے محکمہ سراغرسانی کے انسپکٹر فریدی کو ایک نجی خط لکھ کر بلوایا تھا اور اس کا انتظار کر رہا تھا۔فریدی ان چند انسپکٹروں میں تھا جو بہت ہی اہم کاموں کے لئے وقف تھے لیکن ذاتی تعلقات کی بناءپر ڈاکٹر شوکت کو پورا یقین تھاکہ اسے یہ کیس سرکاری طور پر نہ بھی سونپا گیا تو نجی طور پر اسے اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔
تقریباً دو گھنٹے بعد انسپکٹر فریدی بھی اپنے اسسٹنٹ سارجنٹ حمید کے ساتھ وہا ں پہنچ گیا۔ نسپکٹر فریدی تیس بتیس سال کا ایک قوی ہیکل جوان تھا ۔اس کی کشادہ پیشانی کے نیچے دو بڑی بڑی خواب آلود آنکھیں اس کی ذہانت اور تدبر کی آئینہ دار تھیں اس کے لباس کے رکھ رکھاﺅ اور تازہ شیو سے معلوم ہورہاتھا کہ وہ ایک با اصول اور سلیقہ مند آدمی ہے۔سارجنٹ حمید کے خدو خال میں قدرے زنانہ پن کی جھلک تھی۔ ا س کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ بے جا ناز برداریوں اور اپنے حسن کی نمائش کا عادی ہے۔ اس نے کوئی بہت ہی تیز خوشبو والا سینٹ لگا رکھا تھا۔ اس کی عمر چوبیس سال سے زیادہ نہ تھی لیکن اس چھوٹی سی عمر میں بھی وہ بلا کا ذہین تھا۔
اسی ذہانت کی بناءپر ا نسپکٹر فریدی کے تعلقات اس سے دوستانہ تھے۔ دونوںکی آپس کی گفتگو سے افسری یا ماتحتی کا پتالگانا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور تھا۔
تھانے کے سب انسپکٹر اور دیوان ان کی غیر متوقع آمد سے گھبرا گئے کیوں کہ انہیں ان کے آنے کی اطلاع نہ تھی۔ انہیں ان کی غیر ضروری آمد کچھ نا گوار سی گزری۔
”ڈاکٹر شوکت “ فرید نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ” اس نقصان کی تلافی ناممکن ہے البتہ رسمی طور پر میں اپنے غم کا اظہار ضرور کروں گا۔“
”ا نسپکٹر آج میری ماں مرگئی۔“ شوکت کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔
” صبر کرو تمہیں ایک مضبوط دل کا آدمی ہونا چاہئے۔“ فریدی نے اس کا شانہ تھپکتے ہوئے جواب دیا۔
” کہیئے داروغہ جی کچھ سراغ ملا۔“ اس نے سب ا نسپکٹر کی طرف مڑ کر کہا۔
” ارے صاحب ! ہم بیچارے بلا سراغ لگانا کیا جانیں۔“ سب انسپکٹر طنزیہ انداز میں بولا۔
فریدی نے جواب کی تلخی محسوس ضرور کی لیکن وہ صرف مسکر اکر خاموش ہوگیا۔
” شوکت صاحب ! یہ تو آپ جانتے ہی ہیںکہ میں آج کل چھٹی پر ہوں ۔“ فریدی بولا”اور پھر دوسری بات یہ کہ عموماًقتل کے کیس اس وقت ہمارے پاس آتے ہیںجب سول پولیس تفتیش میںناکام رہتی ہے۔“
تھانے کے انسپکٹر کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔
ا نسپکٹر فریدی نے اس تغیر کو محسوس کر لیا ور اپنے مخصوص دل آزار اور شرارت آمیز لہجے میں بولا” لیکن میں ذاتی تعلقات کی بناءپر نجی طور پر اس کیس کو اپنے ہاتھ میں لوں گا۔“تھانے کے سب ا نسپکٹر کی آنکھوں کی چمک دفعتاً اس طرح غائب ہو گئی جیسے سورج کا چہرہ سیاہ بادل ڈھانپ لیتے ہیں۔ اس کا منہ لٹک گیا۔
فریدی نے واقعات سننے کے بعد خادمہ کا بیان لینے کی خواہش ظاہر کی۔ خادمہ نے شروع سے آخر تک رات کے سارے واقعات دہرادئےے،۔
” کیا تم بتا سکتی ہو کہ را ت میں تم نے ان واقعات کے بعد بھی کوئی آواز سنی تھی۔“
” جی نہیں سوائے اس کے کہ وہ دیوی جی کے بڑبڑانے کی آواز تھی وہ اکثر سوتے وقت بڑبڑایا کرتی تھیں۔“
” ہوں کیا تم بتا سکتی ہو کہ وہ کیا بڑبڑا رہی تھیں۔“
” وہ کچھ بے ربطہ باتیں تھیں ٹھہرئے یاد کرکے بتا تی ہوںہاں ٹھیک یاد آیا وہ راج روپ نگرراج روپ نگر چلا رہی تھیں۔ میں نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ کیونکہ میں ان کی عادت سے واقف تھی۔“
”راج روپ نگر“ فریدی نے دھیرے سے دہرایااور کچھ سوچنے لگا۔
”حمید تم نے اس سے پہلے بھی یہ نام سنا ہے؟“
حمید نے نفی میں سر ہلا دیا۔
”ڈاکٹر شوکت تم نے۔“
”میں نے تو آج تک نہیں سنا۔“
”کیا سیتا دیوی نے بھی یہ نام کبھی نہیں لیا۔“
”میری یاد داشت میں تو نہیں“ ڈاکٹر شوکت نے ذہن پر زور دیتے ہوئے جواب دیا۔
” ہوں اچھا“ فریدی نے کہا” اب میں ذرا لاش کا معائنہ کرنا چاہتا ہوں۔“
وہ سب لوگ اس کمرے میںآئے جہاں لاش پڑی ہوئی تھی۔ چارپائی کے سر ہانے والی کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔اس میں سلاخیں نہیں تھیں ۔ انسپکٹر فریدی دیر تک لاش کا معائنہ کرتا رہا۔ پھر اس نے وہ چھرا سب انسپکٹر کی اجازت سے مقتولہ کے سینے سے کھےنچ لیا اور اس کے دستوں پرانگلیوں کے نشانات ڈھونڈنے لگا۔
پھر کھڑکی کی طرف گیا اور جھک کر نیچے کی طرف دیکھنے لگا۔ کھڑکی سے تین فٹ نیچے تقریباً ایک فٹ چوڑی کارنس تھی جس سے ایک بانس کی سیڑھی ٹکی ہوئی تھی۔ کھڑکی پر پڑی ہوئی گرد کی تہہ کئی جگہ صاف تھی اور ایک جگہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کے نشان۔ ” یہ تو صاف ظاہر ہے کہ قاتل اس کھڑکی سے داخل ہوا ۔“ فریدی نے کہا۔
” یہ اتنا صاف ہے کہ گھر کی خادمہ بھی یہی کہہ رہی تھی۔“ تھانے کے سب انسپکٹر نے مضحکہ اڑانے کے انداز میں کہا۔
فریدی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے خنجر کا جائزہ لینے لگا۔
” قاتل نے دستانے پہن رکھے تھے اور وہ ایک مشاق خنجرباز معلوم ہو تا ہے۔“
انسپکٹر فریدی بولا۔” اور وہ ایک غیر معمولی طاقتور انسان ہے داروغہ جی اس خنجر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔“
” خنجر ۔جی ہاں یہ بھی بہت مضبوط معلوم ہوتا ہے۔“ سب انسپکٹر مسکرا کر بولا۔
” جی نہیں میں اس کی ساخت کے بارے میں پوچھ رہاہوں ۔“
اس کی ساخت کے بارے میں صرف لوہار ہی بتا سکتے ہیں۔ “
” جی نہیں میں بھی بتا سکتا ہوں اس قسم کے خنجر نیپال کے علاوہ اور کہیں نہیں بنتے۔“
” نیپال “ ڈاکٹر شوکت تحیر آمیز لہجے میں بولا اور بے تابانہ انداز میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔
”کیوں کیا بات ہے۔“ فریدی اسے گھورتا ہوا بولا۔
” کوئی بات نہیں ۔“ شوکت نے خود پر قابو حاصل کرتے ہوئے کہا۔
” خیر ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اس قسم کے خنجر سوائے نیپال کے اور کہیں نہیں بنائے جاتے اور ڈاکٹر میں تم سے کہوں گا۔کہ “ ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ ایک کانسٹیبل نے آکر اطلاع دی کہ اس شخص کا پتہ لگ گیا ہے جس سے کل رات سیتا دیوی کا جھگڑا ہواتھا۔
سب لوگ بے تابانہ انداز میں دروازے کی طرف بڑھے۔ باہر ایک باوردی کانسٹیبل کھڑا تھا۔ آنے والے کانسٹیبل نے بتایا۔ رات سیتا دیوی اسی سے جھگڑ رہی تھی۔ وہ رات اس طرف سے گذر رہا تھا کہ سیتا دیوی نے اسے پکارا اسے جلدی تھی کیونکہ وہ گشت پر جا رہا تھا۔ لیکن وہ پھر بھی چلا آیا۔ سیتا دیوی نے اسے بتایا کہ کوئی اور آدمی ان کی مرغیوں کی تاک میںہے اور اس سے ادھر کا خیال رکھنے کی تاکید کی اس نے جواب دیاکہ پولیس مر غیاں تاکنے کے لےے نہیں ہے اور پھروہ دوسری چوکی کا نسٹیبل ہے۔ اسی پر بات بگڑ گئی اور جھگڑا ہونے لگا۔
تھانے کا داروغہ اسے الگ لے جا کر اس سے پوچھ گچھ کرنے لگا اور فریدی نے بلند آواز میں کہنا شروع کیا” ہاں تو ڈاکٹر میں تم سے یہ کہہ رہا تھا کہ یہ خنجر دراصل تمہارے سینے میں ہونا چاہئے تھا۔ سیتا دیوی دھوکے میں قتل ہوگئےں۔ اور جب قاتل کو اپنی غلطی کا علم ہوگا تو وہ پھر تمہارے پیچھے پڑ جائے گا۔ اب پھر اسی کمرے میں چل کر میں اس کی تشریح کروں گا۔“
اس انکشاف پر سب کے سب بوکھلا گئے شوکت بوکھلاہٹ میں جلدی جلدی پلکیں جھپکا رہاتھا۔ داروغہ جی کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں اور سارجنٹ حمید انہیں معنی خیز انداز سے گھور رہا تھا۔
سب لوگ پھر لاش والے کمرے میں واپس آئے۔ انسپکٹر فریدی کھڑکی سے کارنس پر اتر گیا اور اس لائن کے سارے کمروں کی کھڑکیوں کا جائزہ لیتا ہوا لوٹ آیا۔
اب معاملہ بالکل ہی صاف ہو گیا کہ سیتا دیوی ڈاکٹر ہی کے دھوکے میں قتل ہو ئی ہیں۔اگر قاتل سیتا دیوی کو قتل کرنا چاہتا تو اس کو کیا معلوم کہ سیتا دیوی شوکت کے کمرے میں سوئی ہوئی تھیں اگر وہ تلاش کر تا ہوا اس کمرے تک پہنچا تھا تو دوسری کھڑکیوں پربھی اس قسم کے نشانات ہو سکتے تھے۔جیسے کہ ا س کھڑکی پر ملے ہیں اور پھر سیتا دیوی کے قتل کی صرف ایک ہی وجہ ہو سکتی تھی وہ انکی جائیداد ۔ اگر ان کا ترکہ ان کے کسی عزیز کو پہنچتا ہوتا تو وہ انہیں اب سے دس برس قبل ہی قتل کردیتا یا کرادیتا جب انھوں نے اپنی جائیداد دھرم شالہ کے نام وقف کرنے کاصرف ارادہ ہی کیا تھا۔ اب جبکہ دس سال گزر چکے ہیں اور جائیداد کے متعلق قانونی وصیت محفوظ ہے۔ ان کے قتل کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آسکتی اگر قاتل چوری کی نیت سے اتفاقاً اسی کمرے میں داخل ہوا، جس میں وہ سو رہی تھیں تو کیا وجہ ہے کہ کوئی چیز چوری نہیں کی گئی۔
” ممکن ہے اس کمرے میں اس کے داخل ہوتے ہی مقتولہ جاگ اٹھی ہو اور وہ پکڑے جانے کے خوف سے اسے قتل کرکے کچھ چرا ئے بغیر ہی بھاگ کھڑا ہو اہو۔“ داروغہ جی نے اپنی دانست میں بڑا تیر مارا۔
” مائی ڈیئر۔“ فریدی جوش میں بولا ” لیکن میں ثابت کر سکتاہوں کہ قاتل حملہ کے بعد کافی دیر تک اس کمرے میں ٹھہرا ہے۔“
سب انسپکٹر کے چہرے پر تمسخر آمیز مسکراہٹ پھیل گئی اور سارجنٹ حمید اسے دانت پیس کر گھورنے لگا۔
انسپکٹر فریدی نے نہایت سکون کے ساتھ کہنا شروع کیا۔ جس وقت شوکت نے مقتولہ کو دیکھا وہ سر سے پیر تک کمبل اوڑھے ہوئے تھی ظاہر ہے کے اس سے پہلے کوئی کمرے میں داخل بھی نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ دروازہ اند ر سے بند تھا۔ لہٰذا لاش پرپہلے شوکت ہی کی نظر پڑی ۔ اس لئے کسی اور کا منہ ڈھانکنے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا اب ذرا لاش کے قریب آئےے داروغہ جی میں آپ سے کہہ رہا ہوں ۔ یہ دیکھئے مقتولہ کانچلا ہونٹ اس کے دانتوں میں دب کر رہ گیاہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل نے ایک ہاتھ سے مقتولہ کا منہ دبایا تھا اور دوسرے ہاتھ سے وار کیا تھاپھر فورا ہی منہ دبائے ہوئے اس کے پیروں پربیٹھ گیا تھا تاکہ وہ جنبش نہ کر سکے اور وہ اس حالت میں اس وقت تک رہا جب تک مقتولہ نے دم نہ توڑدیا۔ ہونٹ کا دانتوں میں دبا ہونا ظاہر کر رہا ہے کہ وہ تکلیف کی شدت میں صرف اتنا کر سکی کہ اس نے دانتوں میں ہونٹ لیا ۔ لیکن قاتل کہ ہاتھ کے دباﺅ کی وجہ سے ہونٹ پھر اپنی اصلی حالت میں نہ آسکا اور اسی حالت میں لاش ٹھنڈی ہو گئی۔ قاتل کو اپنے مقصد کی کامیابی پر اتنا یقین تھا کہ اس نے کمبل الٹ کر اپنے شکار کا چہرہ تک دیکھنے کی زحمت گوارہ نہ کی ۔ ممکن ہے کہ اس نے بعد میں منہ کھول کر دیکھا بھی ہو مگر نہیں اگر ایسا کرتا تو پھر دوبارہ منہ ڈھانک دینے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔“
” کیا یہ ممکن نہیں کی یہ خود کشی کا کیس ہو۔“ سب انسپکٹر نے پھر اپنی قابلیت کا اظہار کیا۔
” جناب والا “ سارجنٹ حمید بولا ” اتنی عمر آئی لیکن کمبل اوڑھ کر آرام سے خنجر گھونپ لینے والا ایک بھی نہ ملا کہ میں اس کی قدر کر سکتا۔“
سب انسپکٹر نے جھینپ کر اپنا سر جھکا لیا۔
انسپکٹر فریدی ان سب باتوں کو سنی ان سنی کر کے ڈاکٹر شوکت کو مخاطب کر کے بولا۔
” ڈاکٹر تمہاری جان خطرے میں ہے۔ ہر ممکن احتیاطی تدابیر کرو۔ یہ پائلٹ تمہارے ہی قتل کے لئے بنایا گیا تھا ۔ سوچ کر بتاﺅ کیا تمہارا کوئی ایسا دشمن ہے جو تمہاری جان تک لے لینے میں دریغ نہ کرے گا۔“
” میری دانست میں تو کوئی ایسا آدمی نہیں ۔آج تک میرے تعلقات کسی سے خراب نہیں ٹھہرئےے آپ کو یاد ہوگا کہ میں نیپالی خنجر کے تذکرے پر بے اختیار چونک پڑا تھا تقریباً پندرہ یوم کا تذکرہ ہے کہ ایک رات میں ایک بہت ہی خطرناک قسم کا آپریشن کرنے جا رہا تھا کہ ایک اچھی حیثیت کا نیپالی میرے پاس آیا اور مجھ سے درخواست کی کہ میں اسوقت ایک مریض دیکھ لوں ۔ جس کی حالت خطرناک تھی۔ میں نے معذوری ظاہر کی وہ رونے اور گڑ گڑانے لگا لیکن میں مجبور تھا کیونکہ پہلے ہی سے ایک خطرناک کیس میرے پاس تھا۔ خطرہ تھا کہ اسی رات اس کا آپریشن نہ کیا گیا تو مریض کی موت واقع ہوجائے گی آخر جب وہ نیپالی مایوس ہو گیا تو مجھے برا بھلا کہتے ہوئے واپس چلا گیا۔“
دوسرے دن جب میں ہسپتال جا رہا تھا تو چرچ روڈ کے چوراہے پر پیٹرول لینے کے لئے رکا تو وہاں مجھے وہی نیپالی نظر آیا مجھے دیکھ کر اس نے نفرت سے برا سا منہ بنا یا اور اپنی زبان میں کچھ بڑبڑاتا رہا۔ پھر میری طرف مکا تان کر کہنے لگا۔
” شالا ہمارا آدمی مرگیا اب ہم تمہاری خبر لے لے گا“
میں نے ہنس کر مو ٹر اسٹارٹ کی ۔
” ہوں اچھا۔“ فریدی بولا ” اس کی شکل و صورت کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہو۔“
” یہ ذرا مشکل ہے کیونکہ مجھے سارے نیپالی ایک ہی جیسی شکل و صورت کے لگتے ہیں۔“ ڈاکٹر شوکت نے جواب دیا۔
” خیر اپنی حفاظت کا خاص خیال رکھو اچھا داروغہ جی میرا کام ختم ڈاکٹر شوکت میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ اس کیس کو مےں اپنے ہاتھ میں لوں گا۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ بعض وجوہ کی بناءپر ایسا نہ کر سکوں گا میرا خیال ہے کہ داروغہ جی بہ احسن و خوبی اس کام کو انجام دیں گے اچھا اب اجازت چاہوں گا ہاں ڈاکٹر ذرا کار تک چلو میں تمہارے تحفظ کے لئے تمہیں ہدایت دینا چاہتا ہوں“
اچھا داروغہ جی آداب عرض۔“
کار کے قریب پہنچ کر فریدی نے جیب سے ایک چھو ٹا سا پستول نکالا اور ڈاکٹر شوکت کو تھما دیا۔ ” یہ لو حفاظت کے لئے میں تمہیں دیتا ہوں اور کل تک اس کا لائسنس بھی تم تک پہنچ جائے گا۔“
” جی نہیں شکریہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔“شوکت نے منہ پھلا کر جواب دیا۔
” احمق آدمی بگڑ گئے کیا؟ کیا سچ مچ تم یہ سمجھتے ہو کہ میں اس واقعہ کی تفتیش نہ کروںگا وہاں ان گدھوں کے سامنے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ نجی تفتیش سے انکار کردوں یہ کم بخت صرف بڑے افسروں تک شکایت پہنچانے میں قابل ہوتے ہیں۔“ ڈاکٹر شوکت کے چہرے پر رونق آگئی اور اس نے ریوالور لے کر جیب میں ڈال لیا۔
” دیکھو جب بھی کوئی ضرورت پیش آئے مجھے بلو الینا۔ بہت ممکن ہے کہ میں دس بجے رات تک پھر آﺅں ہوشیاری سے رہنا اچھا خدا حافظ۔“
ڈرائیور نے کار اسٹارٹ کر دی۔
سورج آہستہ آہستہ غروب ہو رہا تھا۔
” کیوں بھئی کہو کیسا کیس ہے۔“ فریدی نے سگار سلگا کر سارجنٹ حمید کی طرف جھکتے ہوئے کہا ” میرے خیال میں تو ایسا دلچسپ کیس بہت دنوں کے بعد ہاتھ آیا ہے۔“
” آپ تو دن رات کیسوں ہی کے خواب دیکھا کرتے ہیں کچھ حسین دنیا کی طرف بھی نظر دوڑایئے۔“ حمید بیزاری سے بولا۔
” اس کا یہ مطلب کہ تم اس میں دلچسپی نہ لو گے۔ میں تو آج ہی تفتیش شروع کر رہا ہوں۔“
” بس مجھے تو معاف ہی رکھئے میں نے تضیع اوقات کے لئے ایک ماہ کی چھٹی نہیں لی۔“
” بیکاری میں تمہارا د ل نہیں گھبرا ئے گا؟۔“
” بیکاری کیسی۔“ حمید جلدی سے بولا ”کیاآپ کو معلوم نہیں کہ میں نے ابھی حال ہی میں ایک عدد عشق کیا ہے۔“
” ایک عدد “ فریدی نے ہنس کر کہا ”اور اس تفتیش کے سلسلے میں کئی عدد اور ہوجائے تو کیا مضائقہ ہے۔“
”شاید آپ کا اشارہ ڈاکٹر شوکت کی نو جوان خادمہ کی طرف ہے۔“ حمید منہ بنا کر بولا۔” معاف کیجئے گا۔میر امعیار اتنا گرا ہوا نہیں ہے۔“
” بڑے گدھے ہو تم مجھے تو اس کا خیال بھی نہ تھا۔“ فریدی نے سگار منہ سے نکال کر کہا۔ ” خیر ہٹاﺅ کوئی نئی بات کریں ہاں بھئی سنا ہے کہ دو تین دن ہوئے ریلوے گراﺅنڈ پر سرکس آیا ہو ا ہے۔ بہت تعریف سنی ہے چلو آج سرکس دیکھیں صر ف ساڑھے چار بجے ہیں۔ کھیل سات بجے شروع ہوگا۔ اتنی دیر میں ہم لوگ کھانا بھی کھا لیں گے۔“
” ارے یہ کیا بد پرہیزی کرنے جارہے ہیں ارے لاحول ولا آپ اور لغویات یقین نہیں آتا کیا آپ نے سراغرسانی سے توبہ کر لی ۔“ حمید نے عجیب سا منہ بنا کر کہا۔
” تم نے کیسے سمجھ لیا کہ وہاں میں بے مطلب جا رہا ہوں تم دیکھوگے کہ سراغرسانی کیسے کی جاتی ہے۔“ فریدی نے جواب دیا۔
” معاف کیجئے گا اس وقت تو آپ کسی چھ پیسے والے جاسوسی ناول کے مشہور جاسوس کی طرح بول رہے ہیں۔“ حمید بولا۔
” تم نے سرکس کا اشتہار دیکھا ہوگا بھلا بتاﺅ کسِ کھیل کی خصوصیت کے ساتھ تعریف تھی۔“
” ایک نیپالی کا موت کے خنجر کاکھیل“حمید نے جواب دیا۔ پھر اچھل کر کہنے لگا ” کیا مطلب۔“
فریدی نے اس کے سوال کو ٹالتے ہوئے کہا۔” اچھا اس کھیل میں ہے کیا تم تو ایک بار شائد دیکھ بھی آئے ہو۔“
” وہاں ایک لڑکی ایک لکڑی کے تختے سے لگ کر کھڑی ہو جاتی ہے اور ایک نیپالی اس طرح خنجر پھینکتا ہے کہ وہ اس کے چاروں طرف لکڑی کے تختے میں چبھتے جاتے ہیں۔ آخر جب وہ ان خنجروں کے درمیان سے نکلتی ہے تو لکڑی کے تختے پر چبھے ہوئے خنجروں میں اس کا خاکہ سا بنا رہ جاتا ہے بھئی واقع کمال ہے اگر خنجر ایک سوت بھی آگے بڑھ کر پڑے تولڑکی کاقلع قمع ہوجائے۔“
” اچھا ان خنجروں کی لمبائی کیا ہوگی۔“ فریدی نے سگار کا کش لے کر کہا۔
” میرے خیال سے وہ خنجر ویسے ہی ہیں۔ جیسا کہ آپ نے مقتولہ کے سینے سے نکالا تھا۔“
” بہت خوب“ فریدی اطمینان سے بولا۔” اچھا یہ تو بتاﺅ کہ خنجر کا کتنا حصہ لکڑی کے تختے میں گھس جاتا ہوگا۔“
” میرے خیال میں چوتھائی۔“
” معمولی طاقت والے کے بس کاروگ نہیں۔“ فریدی نے حمید کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے جوش میںکہا۔” اچھا میرے دوست آج سرکس ضرور دیکھا جائے گا۔“
” آخر آپ کا مطلب کیا ہے۔“حمید بے چینی سے بولا۔
” ابھی فی ا لحال تو کوئی خاص مطلب نہیں بقول تمہارے ابھی تو میری اسکیم کسی چھ پیسے والے ناول کے سراغ رساں ہی کی اسکیم کی طرح معلوم ہو رہی ہے آگے اللہ مالک ہے۔“
” آخر کچھ بتائےے تو۔“
” کیا یہ ممکن نہیں کہ سیتا دیوی کے قتل میں اسی نیپالی کا ہاتھ ہو۔“
” یوں تو اس کے قتل میں میرا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے۔“ حمید ہنس کر بولا۔
”تم نہیں سمجھتے ایک لحیم شحیم عورت کی لاش کو پھڑکنے سے روک دینا کسی معمولی طاقت والے آدمی کا کام نہیں۔ایک ذبح کئے ہوئے مرغ کو سنبھالنا دشوار ہوجاتا ہے ۔پھر جس شخص نے ڈاکٹر شوکت کو دھمکی دی تھی وہ بھی نیپالی ہی تھا۔ ایسی صورت میں کیوں نہ ہم اس پر شبہ سے فائدہ اٹھائےں میں یہ وثوق کے ساتھ نہیں کہتا کہ قتل مےں سرکس والے نیپالی کا ہی ہاتھ ہے۔ پھر بھی دیکھ لینے میں کیا مضائقہ ہے۔اگر کوئی سراغ نہیں مل سکا تو تفریح ہی ہو جائے گی۔“
” خیر میں سرکس دیکھنے سے انکار نہیں کر سکتا کیو نکہ اس میں تقریباً دو درجن لڑکیاں کام کرتیں ہیں لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ وہاں کھیل کے دوران میں آپ بحث و مباحثہ کر کے میرا مزاکرکرا کریں۔“
” تم چلو تو سہی ، مجھے یہ بھی معلوم ہے۔“ فریدی نے سگار سلگا کر کہا۔
شہر پہنچ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے ایوننگ نیوز میں نشاط نگر کے قتل کا حال پڑھا۔اس پر انسپکٹر فریدی کے دلا ئل کا ایک ایک لفظ تحریر تھا اور یہ بھی لکھا تھا کہ انسپکٹر فریدی نے نجی طور پر موقعہ واردات کا معائنہ کیاتھا لیکن انہوں نے نجی تفتیش سے انکار کردیا ہے۔ اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ انسپکٹر فریدی چھ ماہ کی رخصت پر ہیں۔اس لئے خیال ہو تا ہے کہ سرکاری طور پر بھی یہ کام ان کے سپرد نہ کیا جاسکے۔
” میرے خیال سے جس شخص کو ہم لوگ ڈاکٹر کا پڑوسی سمجھ رہے تھے وہ ایوننگ نیوز کا نامہ نگار تھا۔“فرید ی نے کہا ”اب تک تو حالات ہمارے ہی موافق ہیں ۔ اس خبر کا آج ہی شائع ہوجانا بڑا اچھا ہوا۔ اگر واقعی سرکس والا نیپالی ہی قاتل ہے تو ہم با آسانی اس پر اس خبر کا رد عمل دیکھ سکیں گے۔“
” ہوں “ حمید کچھ سوچتے ہوئے یوں ہی بے خیا لی میں بولا۔“
” کیا کوئی نئی بات سوجھی۔“ فریدی نے کہا۔
” میں کہتاہوں آخر درد سری مول لینے سے فائدہ ؟ کیوں نہ ہم لوگ اپنی چھٹیاں ہنسی خوشی گذاریں۔“
” اچھا بکواس بند“ فریدی جھلا کر بولا ” اگر تم میرا ساتھ نہیں دینا چاہتے تو نہ دو۔میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا۔“
” آپ تو خفا ہوگئے میرا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ بھی اس چھٹی میں ایک آدھ عشق کر لیتے تو اچھا تھا۔“ حمید نے منہ بنا کر کچھ اس انداز میں کہا کہ فریدی مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔
” اچھا تو کھانا اس وقت میرے ہی ساتھ کھانا۔“ فریدی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
” بسرو چشم “ حمید نے سنجیدگی سے کہا ” بھلا میں اپنے آفیسر کا حکم کس طرح ٹال سکتا ہوں۔“
وہ سرکس شروع ہونے سے پندرہ منٹ قبل ریلوے گراﺅنڈ پہنچ گئے اور بکس کے دو ٹکٹ لے کر رنگ کے سب سے قریب والے صوفے پر جابیٹھے۔دو چار کھیلوں کے بعد اصلی کھیل شروع ہوا۔ ایک ناٹے قد کا مضبوط نیپالی ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ رنگ میں داخل ہوا۔
” غضب کی لونڈیا ہے۔“ حمید نے دھیرے سے کہا۔
” ہشت“ فریدی نیپالی کو بغور دیکھ رہا تھا۔
” خواتین وحضرات !“ رنگ لیڈر کی آواز گونجی ” اب دنیاکا خوفناک ترین کھیل شروع ہونے والا ہے۔ یہ لڑکی اس لکڑی کے تختے سے لگ کر کھڑی ہوجائے گی او یہ نیپالی اپنے خنجر سے لڑکی کے گرد اس کا خاکہ بنائے گا۔ نیپالی کی ذراسی غلطی یا لڑکی کی خفیف سی جنبش اسے موت کی آغوش میں پہنچا سکتی ہے لیکن دیکھئے کہ یہ لڑکی موت کا مقابلہ کس ہمت سے کرتی ہے اور اس نیپالی کا ہاتھ کتنا سدھا ہوا ہے ملا حظہ فرمائےے۔“
” کھٹ“ایک سنسنا تا ہوا خنجر لڑکی کے سر پر اس کے بالوں کو چھوتا ہوا لکڑی کے تختے میں تین انچ دھنس گیا۔لڑکی سر سے پیر تک لرز گئی۔رنگ ماسڑ نے نیپالی کی طرف حیرت سے دیکھا اور اس کے ہونٹ مضطربانا انداز میں ہلنے لگے۔ دیکھنے والوں پر سناٹا چھا گیا۔
” کھٹ “ دوسرا خنجر لڑکی کے کاندھے کے قریب فراک کے پف کو چھوتا ہوا تختے میں دھنس گیا لڑکی کا چہرہ دودھ کی طرح سفید نظر آنے لگا۔ رنگ لیڈر نے بے تابانہ رنگ کا ایک چکر لگا ڈالا۔نیپالی کھڑا دسمبر کی سردی میں اپنے چہرے سے پسینہ پونچھ رہا تھا۔
” کیا اس دن بھی یہ خنجر اس کے اتنے قریب لگے تھے۔ “ فریدی نے جھک کر حمید سے پوچھا۔
” ہر گز نہیں ہر گز نہیں۔“ حمید نے بے تابی سے کہا۔” ان کا فاصلہ تین چار انچ تھا“
”کھٹ“ اب کی بار لڑکی کے منہ سے چیخ نکل گئی ۔ اس کے بازو سے خون نکل رہاتھا۔فریدی نے نیپالی کو شرابیوں کی طرح لڑکھڑاتے رنگ کے باہر جاتے دیکھا فوراً ہی پانچ چھ جوکروں نے رنگ میں آکر اچھل کود مچادی۔
” خواتین و حضرات“ رنگ ماسٹر کی آواز گونجی” مجھے اس وا قعہ پر حیر ت ہے نیپالی پندرہ بیس برس سے ہمارے سر کس میں کام کر رہا ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا ضرور وہ کچھ بیمار ہے جس کی اطلاع نہ تھی بہرحال ابھی بہت سے دلچسپ کھیل باقی ہیں۔“
” آﺅ چلیں“ فریدی نے حمید کا ہاتھ پکڑ کر اٹھتے ہوئے کہا۔
متعدد خیموں کے درمیان سے گذرتے ہوئے وہ تھوڑی دیر بعد منیجر کے دفتر کے سامنے پہنچ گئے۔فریدی نے اپنا ملاقاتی کارڈ اند ر بھجوادیا۔
منیجر اٹھ کر ہاتھ ملاتے ہوئے پُر تپاک لہجے میں بولا ” فرمائےے کیسے تکلیف فرمائی۔“
” میں خنجر والے نیپالی کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں ۔“
” کیا عرض کروں انسپکٹر صاحب !مجھے خود حیرت ہے۔ آج تک ایسا واقعہ نہیں ہوا مجھے سخت شرمندگی ہے کیا قانوناًمجھے اس کے لئے جواب دہ ہونا پڑے گا کچھ سمجھ نہیں آتا۔آج کئی دن سے ا س کی حالت بہت ابتر ہے وہ بے حد شراب پینے لگا ہے“
ہر وقت نشے میں ڈینگیں مارتا رہتا ہے ابھی کل ہی اپنے ایک ساتھی سے کہہ رہاتھا کہ میں اب اتنا دولت مند ہوگیا ہوں مجھے نوکری کی بھی پرواہ نہیں اس نے نوٹوں کی کئی گڈیاں بھی دکھائی تھیں۔“
” اس کی یہ حالت کب سے ہے؟“
” میرا خیال ہے کہ راج روپ نگر کے دورانِ قیام ہی میں اس کی حالت میں تبدیلی واقع ہونی شروع ہوگئی تھی۔“
” راج روپ نگر“ حمید نے چونک کر کہا۔ لیکن فریدی نے اس کے پیر پر اپنا پیر رکھ دیا۔
” کیا راج روپ نگر میں بھی آ پ کی کمپنی نے کھیل دکھائے تھے۔“
” جی نہیں وہاں کہاں وہ تو ایک قصبہ ہے © © © © © ©ہم لوگ وہاں ٹھہر کر اپنے دوسرے قافلے کا انتظار کر رہے تھے۔“
”راج روپ نگر وہی تو نہیں جہاں وجاہت مرزا کی جاگیر ہے۔“
” جی ہاں جی ہاں وہی۔“
” کیا یہ نیپالی پڑھا لکھا آدمی ہے۔“
”جی ہاں میٹرک پاس ہے۔“
” میں اس سے بھی کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں۔“
” ضرور ضرور ۔ میرے ساتھ چلیے لیکن ذرا ہمارا بھی خیال رکھئے گا میں نہیں چاہتا کہ کمپنی کا نام بدنام ہو۔“
” آپ مطمئن رہئے۔“
وہ تینوں خیموں کی قطاروں سے گزرتے ہوئے ایک خیمے کے سامنے رک گئے۔” اندر چلئے “ منیجر بولا۔
” نہیں صرف آپ جائےے آ پ اس سے ہمارے بارے میں کہئے گااگر وہ ملنا پسند کرے گا تو ہم لوگ ملیں گے ورنہ نہیں“ فرید ی نے کہا۔
منیجر پہلے تو کچھ دیر تک حیرت سے اسے دیکھتا رہا پھر اندر چلا گیا فریدی نے اپنی آنکھیں خیمے کی جالی سے لگا دیں نیپالی ابھی تک کھیل ہی کے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔وہ بہت پریشان نظر آرہاتھا۔منیجر کے داخل ہوتے ہی وہ اچھل کر کھڑا ہوگیا لیکن پھر اس کے چہرے پر قدرے اطمینان کے آثار نظر آنے لگے۔
” اوہ آپ آپ ہی ہیں میں سمجھا جی کچھ نہیں مجھے سخت شرمندگی ہے۔“ وہ رک رک کر بولا۔
” تو کیا تم کسی اور کا نتظار کر رہے تھے۔“منیجر نے پوچھا۔
” جج جی “ و ہ ہکلانے لگا۔” نن نہیں بب با لکل نہیں۔“
باہر فریدی نے گہرا سانس لیا اور اس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی وحشیانہ چمک پیدا ہوگئی۔
” میں معافی چاہتا ہوں مجھے افسوس ہے۔“ نیپالی خود کو سنبھال کر بولا۔
” میں اس وقت اس معاملہ پر گفتگو کرنے نہیں آیا ہوں ۔“ منیجر بولا۔”بات دراصل یہ ہے کہ ایک صاحب تم سے ملنا چاہتے ہیں۔“
نیپالی بری طرح کانپنے لگا۔
” مجھ سے مل ملنا چاہتے ہیں ۔“وہ بد حواس ہو کر بیٹھتے ہوئے ہکلایا۔” مگر میں نہیں چاہتا وہ مجھ سے کیوں ملناچاہتے ہیں ۔“
” میں یہی بتانے کے لئے ملناچاہتا ہوں کہ میں کیوں ملنا چاہتا ہوں۔“فریدی نے خیمے میں داخل ہو کر کہا۔ اس کے پیچھے حمید بھی تھا۔
” میں آپ کو نہیں جانتا۔“ اس نے خود کو سنبھال کر کہا۔” میر اخیال ہے کہ اس سے پہلے میں آپ سے نہیں ملا۔“
” میں خفیہ پولیس کا انسپکٹر “فریدی نے جلدی سے کہا۔
” خفیہ پولیس “ وہ اس طرح بولا جیسے کوئی خواب میں بڑبڑاتا ہے۔” لیکن کیوں آخر آپ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔“
” میں تمہیں پریشان نہیں کر نا چاہتا لیکن اگر تم میرے سوالات کا صحیح صحیح جواب دو گے تو پھر تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں کیا تم کل رات نشاط نگر ڈاکٹر شوکت کی کوٹھی پر گئے تھے۔“فریدی نے یہ جملہ نہایت سادگی اور اطمینان سے اداکیا لیکن اس کا اثر کسی بم دھماکے سے کم نہ تھانیپالی بے اختیار اچھل پڑا ۔ فریدی کواب پورا یقین ہو گیا۔
” نہیں نہیں “ وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں چیخا۔”تم سفید جھوٹ بو ل رہے ہو میں وہاں کیوں جاتا نہیں یہ جھوٹ ہے پکا جھوٹ“
”اس سے کوئی فائدہ نہیں مسڑ“ فریدی بولا ۔”میں جانتا ہوں کہ کل رات تم ڈاکٹر شوکت کو قتل کرنے گئے اور اسکے دھوکے میںسیتا دیوی کو قتل کر آئے اگر تم سچ بتادوگے تو میں تمہیں بچانے کی کوشش کروں گا کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ تمہیں کسی دوسرے نے قتل پر آمادہ کیا تھا۔“
” آپ مجھے بچانے کی کوشش کریں گے۔“ وہ بے بسی سے بولا ۔” اوہ میرے خدا میں نے بھیانک غلطی کی۔“
” شاباش ہاں آگے کہو۔“ فریدی نرم لہجے میں بولا۔سرکس کا منیجر انہیں حیرت اور خوف کی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
نیپالی انسپکٹر فریدی کے اس اچانک حملے سے پہلے ہی سرا سیمہ ہوگیا تھا اس نے ایک بے بس بچے کی طرح کہنا شروع کیا” آپ نے کہا کہ میں تمہیں بچا لوں گا اس نے مجھے د س ہزار روپے پیشگی دئےے تھے اور قتل کے بعد دس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا تھا اف میں نے کیا کیا اس کانام ہاں اس کا نام ہے ارررہا اُف “وہ چیخ کر آگے کی طرف جھک گیا
” وہ دیکھو“ سارجنٹ حمید چیخا۔
کسی نے خیمے کے پیچھے سے نیپالی پر حملہ کیا تھا خنجر خیمے کی کپڑے کی دیوار پھاڑتا ہو ااس کی پیٹھ میںگھس گیا تھا۔وہ بکس پر بیٹھے بیٹھے دو تین بار تڑپا پھر خنجر کی گرفت سے آزاد ہو کر فرش پر آرہا۔
” حمید باہر باہر دیکھوجانے نہ پائے “انسپکٹر فریدی غصہ میں چلایا۔
چیخ کی آواز سن کر کچھ اور لوگ بی آ گئے سب نے مل کر قاتل کو تلاش کرنا شروع کیا لیکن بے سود منیجر کو گھبراہٹ کی وجہ سے غش آگیا۔
کوتوالی اطلاع پہنچائی گئی تھوڑی دیر بعد کئی کانسٹیبل اور دو سب انسپکٹر مو قع واردات پر پہنچ گئےانسپکٹر فریدی کو وہاں دیکھ کر انہیں سخت حیرت ہوئی۔ فریدی نے انہیں مختصر اً سارا حال بتایا مقتول کے اقرار جرم کا گواہ منیجر تھا لہٰذا منیجر کا بیان ہو رہا تھا کہ انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید وہاں سے روانہ ہوگئے۔
ان کی کار تیزی سے نشاط نگر کی طرف جارہی تھی۔
” کیوں بھئی رہا نہ وہی چھ پیسے والے جاسوسی ناول والا معا ملہ “ فریدی نے ہنس کر کہا۔
” اب تو مجھے بھی دلچسپی ہوچلی ہے۔“حمید نے کہا ” لیکن یہ تو بتا ئےے کہ آپ کو یقین کیو نکر ہوا تھا کہ وہی قاتل ہے۔“
” یقین کہاں محض شبہ تھا لیکن منیجر سے گفتگو کرنے کے بعد کچھ کچھ یقین ہو چلا تھا کہ سازش میں کسی دوسرے کا ہاتھ ضرور تھامیں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ قتل کے سلسلے میں اپنی غلطی کااحساس ہو جانے کے بعد ہی سے اس کی حالت غیر ہو گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کھیل کے وقت اس کا ہاتھ بہک رہا تھا اب اسے شاید اس شخص کا انتظار تھا۔ جس نے اسے قتل کے لئے آمادہ کیا تھا“

اس حماقت کی جوابدہی کے خیال نے اسے اوربھی پریشان کر رکھا تھا نہیں سب چیزوں کو مد نظر رکھ کر میں نے خود پہلے اس کے خیمے میں جانا منا سب نہیں سمجھا۔منیجر کو اندربھیج کر میں جالی سے اس کا رد عمل دیکھنے لگا۔ جالی سے تو تم بھی دیکھ رہے تھے۔“
” بہر حال آج سے میں آ پکا پورا پورا شاگرد ہوگیا۔“ حمید نے کہا۔
” کیا کہا آج سے کیا پہلے نہ تھے۔“ فریدی نے ہنس کر کہا۔
” نہیں پہلے بھی تھا۔“ حمید نے کہااور دونوں خاموش ہوگئے۔ انسپکٹر فریدی آئندہ کے لئے پرگرام بنا رہاتھا۔
پھاٹک پر کار کی آواز سن کر ڈاکٹر شوکت باہر نکل آیاتھاانسپکٹر فریدی نے سارے واقعات تفصیل سے اسے بتائے۔
” لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اب مطمئن ہوجاﺅ۔“ فریدی نے شوکت کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔” تمہارا اصل دشمن اب بھی آزاد ہے اور وہ کسی وقت بھی تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے لہٰذا احتیاط کی ضرورت ہے میں فکر میں ہوں اور کوشش کروں گا کہ اسے جلد از جلد گرفتار کرکے قانون کے حوالے کردوں ۔“
انسپکٹر فریدی کو افسوس ہو ا تھا کہ سرکاری طور پر وہ اس کیس کا نچارج نہ ہو سکتا تھا۔ ابھی اس کی چھٹی ختم ہونے میں دو ماہ باقی تھے۔ اسے اس بات کا بھی خیال تھا کہ دوسرے قتل کے بعد سے اس معاملہ میں اس کی دست اندازی کا حال آفیسروں کو ضرور معلوم ہوجائے گا جو اصو لاً کسی طرح درست نہ تھا۔ لیکن اسے اس کی پرواہ نہ تھی۔ملازمت کی پرواہ نہ اسے کبھی تھی اور نہ اب۔ وہ خود بھی صاحب جائیداد اور شان سے زندگی بسر کرنے کا عادی تھا۔ اس ملازمت کی طرف اسے دراصل اس کی افتاد طبع لائی تھی۔ ورنہ وہ اتنا دولت مند تھا کہ اس کے بغیر بھی امیروں کی سی زندگی بسر کرتا تھا۔
دوسری واردات کے دوسرے دن صبح جب وہ سو کر اٹھا تو اسے معلوم ہوا کہ چیف انسپکٹر صاحب کا اردلی عرصہ سے اس کا نتظار کر رہا ہے۔ دریافت حال پر پتہ چلا کہ چیف صاحب اپنے بنگلے پر بے صبری سے اس کانتظار کر رہے ہیں اور پولیس انسپکٹر صاحب بھی وہاں موجود ہیں۔ فریدی کا ماتھا ٹھنکا۔ لیکن اس نے لاپرواہی سے نا خوش گوار خےالات کو ذہن سے نکال پھینکا اور ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوکر چیف صاحب کے بنگلے کی طرف روانہ ہوگیا۔
”ہےلو فریدی۔“ چیف صاحب نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا۔” ہم لوگ دیر سے تمہارے منتظر ہیں۔“
” مجھے دیر ہوگئی۔ “ فریدی نے بے پرواہی سے کہا۔
” اس وقت ایک اہم معاملے پر گفتگو کرنے کے لئے آپ کو تکلیف دی گئی ہے۔“
پولیس کمشنر نے اپنا سگار کیس اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
” شکریہ“ فریدی نے سگار سلگاتے ہوئے کہا۔” فرمائےے۔“
” مسٹر فریدی چو بیس گھنٹے کے اندر اس علاقے میں دو عدد وارداتیں ہوئی ہیں۔ ان سے آپ بخوبی واقف ہیں۔“ پولیس کمشنر صاحب نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔” اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ تبدیل ہو کر یہاں آئے ہوئے مجھے صرف دس دن ہوئے ہیں ایسی صورت میں میری بہت بد نامی ہوگی سول پولیس تو قطعی ناکارہ ہے اور معاملہ انتہائی پیچیدہ ہے ۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی بقیہ چھٹی فی الحال کینسل کرا لیں اور اس کا میں ذمہ لیتا ہوں کہ قاتل کا پتہ لگ جانے کے بعد میں آپ کو دو کے بجائے چار ماہ کی چھٹی دلا دوں گایہ میرا دوستانہ مشورہ ہے اس کا افسری اور ماتحتی سے کوئی تعلق نہیں۔“
” جی میںہر وقت اور ہرخدمت کے لئے حاضر ہوں ۔“ فریدی نے اپنی آرزو پوری ہوتے دیکھ کر پر خلوص لہجے میں کہا۔
” بہت بہت شکریہ “پولیس کمشنر صاحب اطمینان کاسانس لے کر بولے ” کل رات آپ اپنا بیان دے کر چلے آئے تھے۔ اس کے بعد نیپالی کے خیمے کی تلاشی لینے پر سات ہزار روپے برآمد ہوئے جو کم ازکم اس کی حیثیت سے زیادہ تھے“
اس کے پس انداز ہونے کا خیال اسی لئے پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ایک خرچےلا آدمی تھا ان روپوں کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہ مل سکی جس سے اسکے قاتل کی شخصیت کاپتہ لگ سکتا بہر حال سیتا دیوی کے قاتل کا سہرا تو آپ ہی کے سر ہے لیکن اب اس کے قاتل کا پتہ لگانا بہت ضروری ہے۔اور یہ کام سوائے آپ کے اور کوئی نہیں کرسکتا میں نے کل رات ہی یہ دونوں کیس محکمہ سراغرسانی کے سپرد کر دئےے ہیں۔اب بقیہ ہدایات آپ کو چیف انسپکٹر سے ملیں گی۔“
” اور میں تمہیں اس کیس کا انچارج بناتا ہوں ۔“چیف انسپکٹر صاحب نے کہا ” اس کے کاغذات تمہیں دس بجے تک مل جائیں گے۔“
” یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ میں کیس کی تفتیش شروع ہی سے کر رہاہوں اور میں نے اس سلسلے میں اپنا طریقہ کار بھی مکمل کر لیا ہے لیکن آپ سے استدعا ہے کہ آپ یہی ظاہر ہونے دیں کی میں چھٹی پر ہوں اور یہ معاملہ ابھی تک محکمہ سراغرسانی تک نہیں پہنچا۔“
” تو اس کیس میں بھی تم اپنی پرانی عادت کے مطابق اکیلے ہی کام کروگے۔“چیف انسپکٹر صاحب نے کہا۔ ” یہ عادت خطرناک ہے۔“
” مجھے افسوس ہے کہ بعض وجوہ کی بناءپر جنہیں میں ابھی ظاہر نہیں کرنا چاہتا مجھے یہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ اچھا اب اجازت چاہتا ہوں ۔“
انسپکٹر فریدی کے گھر پر سار جنٹ حمید اس کا ا نتظار کر رہاتھا۔ اس کی آنکھوں سے معلوم ہو رہا تھا۔ جیسے وہ رات بھر نہ سوےا ہو۔ فریدی کے گھر پہنچتے ہی وہ بے تابی سے اس کی طرف بڑھا۔
” کہو خیریت تو ہے۔“فریدی نے کہا تم مجھے پریشان سے معلوم ہوتے ہو۔“
” کچھ کیا ۔میں بہت پریشان ہوں ۔“ حمید نے کہا۔
” آخر بات کیا ہے۔“
” کل رات تقریباً ایک بجے میں آپ کے گھر سے روانہ ہوا تھوڑی دور چلنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میراکوئی پیچھا کر رہا ہے ۔ پہلے توخیال ہوا کہ یہ کوئی راہ گیر ہوگا لیکن جب میں نے اپنا شبہ رفع کرنے کے لئے یو ں ہی بے مطلب پیچ در پیچ گلیوں میں گھسنا شروع کیا تو میرا شبہ یقین کی حد تک پہنچ گیا۔کیو نکہ وہ اب بھی میر اپیچھا کر رہا تھا۔ خیر میں نے گھر پہنچ کر تالا کھولا اور کواڑ بند کرکے درز سے جھانکتا رہا۔ میرا تعاقب کرنے والا اب میرے مکان کے سامنے کھڑا دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ آگے بڑھ گیا میں دبے پاﺅں باہر نکلا اور اب میں اس کا پیچھا کر رہا تھا۔
اس قسم کا تعاقب کم سے کم میرے لئے نیا تجربہ تھا کیونکہ تعاقب کرتے کرتے پانچ بج گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ یوں ہی بلا مقصد آوارہ گردی کر تا پھر رہا ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ میں اس کا چہرہ نہیںدیکھ سکا ۔ کیونکہ ا سنے اپنے چسٹر کا کالر کھڑا کررکھا تھا اور اس کی نائٹ کیپ اس کے چہرے پر جھکی ہوئی تھی ۔ تقریباً پانچ بجے وہ باٹم روڈ اور بیلی روڈ کے چوراہے پر رک گیا وہاں ایک کار کھڑی تھی۔ و ہ اس میں بیٹھ گیا اور کار تیزی سے شمال کی جانب روانہ ہوگئی وہاں اس وقت مجھے کوئی سواری نہ مل سکی ۔ لہٰذا تین میل سے پیدل چل کر آرہا ہوں۔ شاید رات سے اب تک میں نے پندرہ میل کا چکر لگایا ہوگا۔“
”تمہاری نئی دریافت تو بہت دلچسپ رہی ۔“ فریدی کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
وہ تھوڑی دیر تک چُپ رہا اس کی آنکھیں اس طرح دھندلا گئیں جیسے اسے نیند آرہی ہو۔ پھر اچانک ان میں ایک طرح کی وحشیانہ چمک پیدا ہوگئی اور اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا
” کیا کہا تم نے “ فریدی بولا۔ ” وہ باٹم روڈ کے چوراہے سے شمال کی جانب چلا گیا۔“
” جی ہاں ۔“
” اور تمہیں شاید یہ معلوم نہ ہو گا کہ ا سی چوراہے پر سے اگر تم جنوب کی طرف چلو تو پندرہ میل چلنے کے بعد تم راج روپ نگر پہنچ جاﺅگے اب مجھے یقین ہو گیا کہ مجرم کا سراغ راج روپ نگر ہی میں مل سکے گا۔ دیکھو اگر وہ سچ مچ تمہارا پیچھا کر رہا ہوتاتو تمہیں اس کا احساس بھی نہ ہونے دیتا ۔ اس نے دیدہ دانستہ ایسا کیا تاکہ تم اس کے پیچھے لگ جاﺅ اور وہ اسی چوراہے سے جنوب کی طرف جانے کے بجائے شمال کی طرف جاکر میرے دل سے اس خیال کو نکال دے کہ اصلی مجرم راج روپ نگر کاباشندہ ہے اوہ میرے خدا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ نیپالی کے قتل کے پہلے سے ہم لوگوں کے قریب ہی رہاتھا اور اس نے منیجر کے دفتر میں بھی ہماری گفتگو سنی۔ وہیں راج روپ نگر کی گفتگو آئی تھی اخبار میں تو اس کا کوئی حوالہ نہیں تھا مجرم معمولی ذہانت کا آدمی نہیں معلوم ہوتا کیا تم اس کا حلیہ بتا سکتے ہو۔“
” یہ تو میںپہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔“ حمید نے کچھ سوچ کرکہا لیکن ٹھہریے۔ اس میں ایک خا ص بات تھی جس کی بناءپر وہ پہچانا جاسکتا ہے۔ اس کی پیٹھ پر بڑا سا کوبڑ تھا۔“
” اماں چھوڑو بی ۔ کوبڑتو کوٹ کے نیچے بہت سا کپڑا ٹھونس کر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اگروہ سچ مچ کبڑا ہوتا تو تمہیں اپنے پیچھے آنے کی دعوت ہی نہ دیتا۔“
” واللہ ! آپ نے تو شرلاک ہومز کے بھی کان کاٹ کر کھالیے۔“ حمید ہنس کر بولا۔
” تم نے پھر جاسوسی ناولوں کے جاسوسوں کے حوالے دینے شروع کردئےے۔“فریدی نے برا مان کرکہا۔
” بخدا میں مضحکہ نہیں اڑا رہا ہوں۔“
” خیر ہٹاﺅ میں اس وقت تنہا راج روپ نگر جارہا ہوں۔“
” یہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ آپ تنہا راج روپ نگر جارہے ہیں۔میں رات بھر نہیں سویا۔“
” اگر تم سوئے بھی ہوتے تو بھی میں تمہیں اپنے ساتھ نہ لے جاتا کیونکہ تم چھٹی پر ہو اور میںنے اپنی چھٹیاں کینسل کرادی ہیں۔ اور یہ کیس سرکاری طور پر میرے سپرد کیا گیا ہے۔“
” یہ کب “ حمید نے متحیر ہو کر پوچھا۔
” ابھی“ فریدی نے جواب دیا۔ اور سارے واقعات بتادئےے۔
” تو پھر ا ٓپ واقعی تنہا جائےں گے۔ “ حمید نے کہا۔” اچھا یہ تو بتائےے کیا آ پنے اپنا طریقہ کار سوچ لیا ہے۔“
” قطعی“فرید ی نے جواب دیا۔کل رات میں تمہارے جانے کے بعد ہی راج روپ نگر کے متعلق بہت سی معلومات اکٹھی کی ہیں۔ مثلاً یہی کہ راج روپ نگر نواب صاحب وجاہت مرزا کی جاگیر ہے اور نواب صاحب کسی شدید قسم کی ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ تقریباً پندرہ روز سے دن رات سو رہے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہئے کہ بے ہوش ہیںان کے فیملی ڈاکٹر کی رائے ہے کہ سرکا آپریشن کرایاجائے لیکن موجودہ معا لج کرنل تیواری جو پولیس ہسپتال کے انچارج ہیںآپریشن کے خلاف ہیں۔ اس سلسلے میں دوسری جو بات معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ نواب صاحب لاولد ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا سوتیلابھتیجا اور ان کی بیوہ بہن اپنی جوان لڑکی سمیت رہتی ہیں۔مجھے جہاں تک پتہ چلا ہے کہ نواب صاحب نے اپنی جاگیر کے متعلق ابھی تک کسی قسم کا وصیت نامہ نہیں لکھا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ان کی بیوہ بہن یا سوتیلے بھتیجے میں سے کوئی بھی جائیداد کے لالچ میں یہ خواہش نہی رکھ سکتا کہ نواب صاحب ہوش میں آنے سے پہلے ہی مر جائیں۔ بہت ممکن ہے کہ اسی مقصد کے تحت ذہنی بیماریوں کے مشہور ترین ڈاکٹر شوکت کو قتل کرادینے کی کوشش کی گئی ہو محض اس ڈر سے کہ کہیں نواب صاحب اس کے زیر علاج نہ آجائیں کیو نکہ ان کا فیملی ڈاکٹر آپریشن کے اوپر کافی زور دے رہا تھا۔“ فریدی خاموش ہوگیا۔
” آپ کے دلائل بہت وزنی معلوم ہوتے ہیں ۔“ حمید بولا۔” لیکن آپ کا تنہا جانا ٹھیک نہیں۔“

” تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو کہ طریقہ کار سمجھ میںآجانے کے بعد میں تنہا کام کرنے کا عادی ہوں۔“ فریدی نے ہنس کر کہا۔” اور پھر تم نے ابھی حال ہی میں ایک عدد عشق کیا ہے میں تمہارے عشق میں گڑبڑ نہیں پیدا کرنا چاہتا واپسی میں تمہاری محبوبہ کے لیے ایک عدد انگوٹھی ضرور لیتا آﺅں گا اچھا اب تم ناشتہ کرکے یہیں سو رہو اور میں چلا۔“
راج روپ نگر میں نواب وجاہت مرزا کی عالیشان کوٹھی بستی سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلہ میں پر واقع تھی۔ نواب صاحب شوقین آدمی تھے۔ اس لئے انہوں نے اس قصبہ کو ننھا منا سا خوبصورت شہر بنا دیا تھا۔ بس صرف الیکڑک لائٹ کی کسر رہ گئی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنی کوٹھی میں ایک طاقتور ڈائنمو لگا کر اس کی کمی کو پور کردیا تھا۔ البتہ قصبے والے بجلی کی روشنی سے محروم تھے۔ کو ٹھی کے چاروں طرف چار فر لانگ کے رقبہ میں خشنماباغات تھے اور صاف و شفاف روشوں کا جال بچھا ہوا تھا ۔ نواب صاحب کی کوٹھی سے ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر ایک قدیم وضع کی عمارت تھی جس میں ایک چھوٹا سا مینار تھا۔ کسی زمانے میں ا س مینار کا اوپری حصہ کھلا رہا ہوگا اور نواب صاحب کے آباﺅ اجداد اس پر بیٹھ کر تفریح کیا کرتے ہوں گے لیکن اب یہ بند کرادیا گیا تھا۔ صرف دو کھڑکیاں کھلی رہ گئیں تھیں ۔ ایک بار کھڑکی میں ایک بڑی سی دور بین لگی ہوئی تھی۔ جس کا قطر تقریباً ایک فٹ رہا ہوگا۔ اس عمارت میں مشہور ماہر فلکیات پروفیسر عمران رہتا تھا۔ نواب صاحب نے یہ پرانی عمارت اس کرائے پر دے رکھی تھی۔ اس نے اس مینار کی بالائی منزل کو چاروں طرف سے بند کراکے اس پر اپنی ستاروں کی رفتار کاجائزہ لینے والی بڑی دوربین فٹ کرا لی تھی۔ قصبے والوں کے لئے وہ ایک پر اسرار آدمی تھا۔بہتوں کاخیال تھا کہ وہ پاگل ہے اسے آج تک کسی نے اس چار فرلانگ کے رقبے سے باہر نہ دیکھا تھا۔
انسپکٹر فریدی کوٹھی کے قریب پہنچ کر سوچنے لگا کہ کس طرح اندر جائے دفتعاً ایک نوکر برآمدے میں آیا فریدی نے آگے بڑھ کر ا سے پوچھا۔” اب نواب صاحب کی کیسی طبیعت ہے۔“
” ابھی وہی حال ہے۔“ نوکر اسے گھورتا ہو ا بولا۔” آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں۔“
” میں روزنامہ خبر “ کا نمائندہ ہوں اور کنور سلیم سے ملنا چاہتا ہوں۔“
” یہاں اندر ہال میں تشریف لائےے میں انہیں خبر کرتا ہوں۔“
فریدی برآمدے سے گذر کر ہال میں داخل ہوا۔ ہال کی دیواروں پر چاروں طرف نواب صاحب کے آباﺅ اجداد کی قدآدم تصویریں لگی ہوئی تھیں ۔فریدی ان کا جائزہ لیتے لیتے چونک پڑا۔ اس کی نظریں ایک پرانی تصویر پر جمی ہوئی تھیں اسے ایسا معلوم ہوا جیسے مونچھوں اور ڈاڑھی کے پیچھے کوئی جانا پہچانا چہرہ ہے۔
”ارے وہ مارا بیٹا فریدی ۔“ وہ آپ ہی آپ بڑبڑایا۔
وہ قدموں کی آہٹ سے چونک پڑا سامنے کے دروازے میں ایک لمبا تڑنگا۔ نوجوان قیمتی سوٹ میں ملبوس کھڑا تھا پہلے تو وہ فریدی کو دیکھ کر جھجکا پھر مسکراتاہوا آگے بڑھا
” صاحب آپ نامہ نگاروں سے تو میںتنگ آگیا ہوں۔“ وہ ہنس کر بولا۔” کہیے آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں۔“
”شاید میں کنور صاحب سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل کر رہا ہوں“فرید ی نے ادب سے کہا۔
” جی ہاں مجھے کنور سلیم کہتے ہیں۔“ اس نے بے دلی سے کہا۔” جو کچھ پوچھنا ہو جلد پوچھئے میں بہت مصروف آدمی ہوں۔“
” نواب صاحب کا اب کیا حال ہے۔“
” ابھی تک ہوش نہیں آیا اور کچھ۔“
” کب سے بے ہوش ہیں؟“
پندرہ دن سے فیملی ڈاکٹر کی رائے ہے کہ آپریشن کیا جائے۔ لیکن کرنل تیواری اس کے حق میں نہیں ہیں“



اچھا بس اب مجھے اجازت دیجئے۔“ وہ پھراس طرف گھوم گیا جس طرف سے آیا تھا۔
فریدی کے لےے واپس جانے کے سوا اور چارہ ہی کیا تھا۔
جب وہ پرانی کوٹھی کے پاس سے گذر رہا تھا تو یک بیک اس کی ہیٹ اچھل کر اس کی گود میں آرہی ۔ ہیٹ میں بڑا سا چھید ہو گیا تھا اس نے دل میں کہا ” بال بال بچے فریدی صاحب ۔ اب کبھی موٹر کی چھت گرا کر سفر نہ کرنا ابھی تو اس بے آواز رائفل نے تمہاری جان ہی لے لی تھی۔“تھوڑی دور چل کر اس نے کار روک لی ۔اور پرانی کوٹھی کی طرف واپس لوٹا مہندی کی باڑھ کی آڑھ سے اس نے دیکھا کہ پرانی کوٹھی کے باغ میں ایک عجیب الخلقت بوڑھا ایک چھوٹی نال والی طاقت ور رائفل لئے گلہریوں کے پیچھے دوڑرہا تھا۔
فریدی مہندی کی باڑھ پھلانگ کر اندر پہنچ گیا بوڑھا چونک کر اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔ بوڑھے کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا۔ جیسے کوئی قبر کا مردہ قبر سے اٹھ کر آگیا ہو یا پھر جیسے وہ کوئی بھوت ہو اس کا رنگ ہلدی کی طرح پیلا تھا۔ بال کیا بھویں تک سفید ہو گئیں تھیں چہرہ لمبا تھا اور گالوں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں ۔ ڈاڑھی مونچھ صاف نظر آرہی تھی لیکن آنکھوں میں بلا کی چمک اور جسم میں حیرت انگیز پھر تیلا پن تھا۔ وہ اچھل کرفریدی کے قریب آگیا۔
”مجھ سے ملئے میں پروفیسر عمران ہوں ماہر فلکیات عمران اور آپ ؟“
” مجھے آپ کے نام سے دلچسپی نہیں “ فریدی اے گھور کر بولا ” میں تو اس خوفناک ہتھیار میں دلچسپی لے رہا ہوں جو آپ کے ہاتھ میں ہے۔“
” ہتھیار “ بوڑھے نے خوفناک قہقہ لگایا۔” یہ تو میری دور بین ہے“۔
” اوہ دور بین ہی سہی لیکن ابھی اس نے مجھے دوسری دنیا میں پہنچا دیا ہوتا۔“
فریدی نے اپنے ہیٹ کا سراغ اسے دکھایا اور پھر ہنس کر کہنے لگا۔
” شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہوں ۔ یہ واقعی رائفل ہی ہے۔ میں گلہریوں کا شکار کر رہا تھا۔ معافی چاہتا ہو ں اور اپنی دوستی کا ہاتھ آپ کی طرف بڑھاتا ہوں “ بوڑھے نے فریدی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کرا س زور سے دبایا کہ اس کے ہاتھ کی ہڈیاں تک دکھنے لگیں ۔ اس نحیف الجثہ بوڑھے میں اتنی طاقت دیکھ کر فریدی بوکھلا سا گیا۔
” آئے اند ر چلئے آپ ایک اچھے دوست ثابت ہوسکتے ہیں۔“ وہ فریدی کا ہاتھ پکڑے ہوئے پرانی کوٹھی میں داخل ہوا۔
” آج کل گلہریوں اور دوسرے جانور میرا موضوع ہیں آئےے میں آپ کو ان کے نمونے دکھاﺅں“وہ فریدی کو ایک تاریک کمرے میں لے جاتا ہوا بولا۔ کمرے میں عجیب و غریب طرح کی ناخوشگوار سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ بوڑھے نے کئی موم بتیاں جلائےں۔ کمرے میںچاروں طرف مردہ جانوروں کے ڈھانچے رکھے ہوئے تھے۔ بہت سے چھوٹے جانور کیلوں کی مدد سے لکڑی کے تختوں میں جکڑ دئے گئے تھے۔ ان میں سے کئی خرگوش اور کئی گلہریاں تو ابھی تک زندہ تھیں۔جن کی تڑپ بہت ہی خوفناک منظر پیش کر رہی تھی۔ کبھی کبھی کوئی خرگوش درد کی تکلیف سے چیخ اٹھتا تھا۔ فریدی کو اختلاج سا ہونے لگا۔ اور وہ گھبرا کر کمرے سے نکل آیا۔
” اب آےئے میں آپ کو اپنی آبزرویٹری دکھاﺅں ۔“ یہ کہہ کر وہ مینار کے زینوں پر چڑھنے لگا۔ فریدی بھی اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ مینار تقریباً پچیس فٹ چوڑا رہا ہوگا۔ آخر میں وہ ایک کمرے میںداخل ہوئے جو بالائی منزل پر تھا وہیں ایک کھڑکی میں دور بین نصب تھی۔
” یہاں آئےے “ وہ دور بین کے شیشے پر جھک کر بولا ۔” میں اس وقت نواب صاحب کی خواب گاہ کامنظر دیکھ رہا ہوں جیسے وہ یہاں سے صرف پانچ فٹ کے فاصلے پر ہو نواب صاحب چت لیٹے ہیں ان کے سر ہانے ان کی بھانجی بیٹھی ہےیہ لیجئے دیکھئے“
فریدی نے اپنی آنکھ شیشے سے لگادی سامنے والی کوٹھی کی کشادہ کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور کمرے کامنظر صاف نظر آرہا تھا۔“

کوئی شخص سر سے پیر تک مخمل کے لحاف اوڑھے لیٹا تھا۔ اور ایک خوبصورت لڑکی سرہانے بیٹھی تھی۔
” میںسامنے والے کمرے کے بہت سے راز جانتا ہوں لیکن تمہیں کیوں بتاﺅں “ بوڑھا فرید ی کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔ ”بس کرو آﺅ اب چلیں۔“
”مجھے کسی کے راز جاننے کی ضرورت ہی کیاہے۔“ فریدی اپنے شانے اچھالتا ہو بولا بوڑھا قہقہہ لگا کر بولا۔” کیامجھے احمق سمجھتے ہو۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ جملہ تم نے محض اسی لئے کہا ہے کہ وہ سارے راز اگل دوں تم خطرناک آدمی معلوم ہوتے ہو اچھا اب چلو میں تمہیں باہر جانے کا راستہ دکھادوں۔“
وہ دونو ں نیچے اتر آئے۔ ابھی وہ ہال ہی میں تھے کہ دروازے پر کنور سلیم کی صورت دکھائی دی۔
” آپ یہاں کیسے ؟“ اس نے فریدی سے پوچھا۔ ” کیا آپ پروفیسر کو جانتے ہیں۔“
” جی نہیں “ لیکن آج انہیں اس طرح جان گیا ہوں کہ زندگی بھر نہ بھلا سکوں گا۔“
” کیا مطلب “
” آپ گلہریوں کاشکار کرتے کرتے آدمی کا شکار کرنے لگے تھے۔“ فریدی پروفیسر کے ہاتھ میں دبی ہوئی رائفل کی طرف اشارہ کرکے بولا۔ ” میری فلیٹ ہیٹ ملاحظہ فرمائےے۔“
” اوہ سمجھا“ کنور سلیم تیز لہجے میں بولا۔” پروفیسر تم براہ کرم ہماری کوٹھی خالی کردو، ورنہ میں تمہیں پاگل خانے بھجوادوں گا۔سمجھے۔“
بوڑھے نے خوفزدہ نگاہوں سے کنور سلیم کی طرف دیکھا اور بےساختہ بھاگ کر مینار کے زینوں پر چڑھتا چلاگیا۔
” معاف کیجئے گا یہ بوڑھا پاگل ہے۔ خواہ مخواہ ہماری پریشانی بڑھ جائیں گی اچھا خدا حافظ۔“
فریدی نے اپنی کار کا رخ قصبے کی طرف پھیر دیا۔ اب وہ نواب صاحب کے فیملی ڈاکٹر سے ملنا چاہتا تھا ۔ ڈاکٹر توصیف ایک معمر آدمی تھا۔ اس سے قبل وہ سول سرجن تھا پنشن لینے کے بعد اس نے اپنے آبائی مکان میں رہنا شروع کر دیا تھا جو راج روپ نگر میں واقع تھا۔ اس کا شمار قصبہ کے ذی عزت اور دولت مند لوگوں میںہوتا تھا۔ فریدی کو اس کی جائے رہائش معلوم کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔
ڈاکٹر توصیف انسپکٹر فریدی کو شاید پہچانتا تھا اس لےے و ہ اس کی غیر متوقع آمد سے کچھ گھبرا سا گیا۔
” مجھے فریدی کہتے ہیں۔“ اس نے اپنا ملاقاتی کارڈ پیش کرتے ہوئے کہا۔
” میںآپ کو جانتا ہوں۔“ ڈاکٹر توصیف نے مضطربانہ انداز مین ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔ ” فرمائےے کیسے تکلیف فرمائی۔“
” ڈاکٹر صاحب میں ایک نہایت اہم معاملے میں آپ سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔“
” فرمائےے © © اچھا اندر تشریف لے چلئے۔“
” آپ ہی نواب صاحب کے فیملی ڈاکٹر ہیں۔“ فریدی نے سگار لائٹر سے سلگاتے ہوئے کہا۔
” جی ہاںجی فرمائےے۔“ ڈاکٹر نے مضطربانہ لہجے میں کہا۔
” کیا کرنل تیواری آپ کے مشورے سے نواب صاحب کا علاج کر رہے ہیں۔“وہ اچانک ہی پوچھ بیٹھا۔
ڈاکٹر توصیف چونک کر اسے گھورنے لگا۔
” لیکن آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں۔“
” ڈاکٹر صاحب ! ذہنی بیماریوں کے علاج میں مجھے بھی تھوڑا سا دخل ہے۔ اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس قسم کے مرض کا علاج صرف ایک ہے اور وہ ہے آپریشن آخر کرنل تیواری کو جسے کئی نوجوان ڈاکٹرذہنی امراض کے سلسلے میں کافی پیچھے چھوڑچکے ہیں معالج کیوں مقرر کیا گیا۔“

” میرا خیال ہے کہ آپ قطعی نجی معاملے میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔“ ڈاکٹر توصیف نے ناخو شگوار لہجے میں کہا۔
” آپ سمجھے نہیں“ فریدی نے نرم لہجے میں کہا۔”میں یہ نواب صاحب کی جان لینے کی ایک گہری سازش کا پتہ لگا رہا ہوں۔ اس سلسلے میں آپ سے مدد لینی مناسب ہے۔“
” جی “ ڈاکٹر توصیف نے چونک کر کہااور پھر مضمحل سا ہوگیا ۔
” جی ہاں کیاآپ میری مد د کریں گے۔“ فریدی نے سگار کا کش لے کر پر اطمینان لہجے میں کہا۔
” بات دراصل یہ ہے انسپکٹر صاحب کہ میںخود بھی اس معاملے میں بہت پریشان ہوں۔ لیکن کیا کروں خود نواب صاحب کی بھی یہی خواہش تھی انہیں دو ایک بار کرنل تیواری کے علاج سے فائدہ ہوچکا ہے۔“
” لیکن مجھے تو معلوم ہوا ہے کہ کرنل تیواری کو علاج کے لئے ان کے خاندان والوں نے منتخب کیا ہے۔“
” نہیں یہ بات نہیں البتہ انہوں نے میری آپریشن والی تجویز نہیں مانی تھی میں آپکو وہ خط دکھا تا ہوں جو نواب صاحب نے دورہ پڑنے سے ایک دن قبل مجھے لکھاتھا ۔“
ڈاکٹر توصیف اٹھ کردوسرے کمرے میں چلا گیا اور فریدی سگار کے کش لیتا ہوا ادھ کھلی آنکھوں سے خلا میں تکتا رہا۔
” یہ دیکھئے نواب صاحب کاخط “ ڈاکٹر توصیف نے فرید ی کی طرف خط بڑھاتے ہوئے کہا۔ فریدی خط کاجائزہ لینے لگا خط نواب صاحب کے ذاتی پیڈ پر لکھا گیا تھا۔ جس کی پیشانی پر ان کانام اور پتہ چھپا ہوا تھا۔
فریدی خط پڑھنے لگا۔
” ڈیئر ڈاکٹر “
آج دو دن سے مجھے محسوس ہو رہا ہے جیسے مجھ پردورہ پڑنے والا ہے اگر آپ شام تک کرنل تیواری کو لے کرآجائیں تو بہتر ہے۔ پچھلی مرتبہ بھی ان کے علاج سے فائدہ ہو اتھا۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ کرنل تیواری آج کل بہت مشغول ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ آپ انہیں لے کر ہی آئیں گے۔
آپ کا
وجاہت مرزا
” ڈاکٹر صاحب کیا آپکو یقین ہے کہ یہ خط نواب صاحب ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔“ فریدی نے خط پڑ ھ کر کہا۔
” اتنا ہی یقین ہے جتناکہ اس پر اس وقت میں آپ سے گفتگو کر رہاہوں۔ میں نواب صاحب کا انداز تحریر لاکھوں میںپہچان سکتا ہوں۔“
” ہوں “ فریدی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ” لیکن ڈاکٹر صاحب ذرا اس پر غور کیجئے کیا آپ نے کبھی اتنی چوڑائی رکھنے والے کاغذ کا اتنا چھوٹا سا پیڈ بھی دیکھا ہے کس قدر بے ڈھنگا معلوم ہورہا اوہ یہ دیکھئے صا ف معلوم ہے کہ دستخط کے نیچے سے کسی نے کاغذ کابقیہ ٹکڑا قینچی سے کا ٹا ہےڈاکٹر کیا آپ کو یہ اسی حالت میں ملا تھا۔“
”جی ہاں “ ڈاکٹرنے متحیر ہو کر کہا” لیکن میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔“
” وہی عرض کرنے جا رہا ہوں کیایہ ممکن نہیں کہ نواب صاحب نے خط لکھ کر دستخط کردینے کے بعد بھی نیچے کچھ لکھا ہو جسے کسی نے بعد میں قینچی سے کاٹ کر اسے برابر کرنے کی کوشش کی ہو میرا خیال ہے کہ نواب صاحب فطرتاً اتنے کنجوس نہیں کہ باقی بچا ہو اکاغذ کاٹ کر دوسرے مصرف کےلئے رکھ لیں۔“
” اف میرے خدا“ ڈاکٹر نے سر پکڑ لیا” یہاں تک میری نظر نہیں پہنچی تھی۔“

بہرحال حالات کچھ ہی کیوں نہ رہے ہوں ۔ کیا آپ بحیثیت فیملی ڈاکٹر اتنا نہیں کرسکتے کہ کرنل تیواری کی بجائے کسی اور معالج سے علاج کرائےں۔“
” میں اس معاملے میں بالکل بے بس ہوںفرید ی صاحب حالانکہ نواب صاحب نے کئی بار مجھ سے ٓآپرےشن کرا لینے سے متعلق گفتگو کی تھی اور ہاں کیا نام ہے اس کا اس سلسلے میں سول ہسپتال اسپیشلسٹ ڈاکٹر شوکت کابھی تذکرہ آیا تھا۔“
” اب تو معاملہ بالکل صاف ہوگیا۔“ فریدی نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔ ممکن ہے خط لکھ چکنے کے بعد نواب صاحب نے یہ لکھا ہو اگر کرنل تیواری نہ مل سکیں تو ڈاکٹر شوکت کو لیتے آئےے گا۔ اس ہی حصے کو کسی نے غائب کردیا۔“
” ہوں “ توصیف نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
” میرا خیال ہے کہ آپ ڈاکٹر شوکت سے ضرور رجوع کیجئے کم از کم اس صوبے میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتا۔“
میں اس کی تعریف اخبار میں پڑھتا ہوں اور اس سے ایک بار مل بھی چکا ہوں۔ میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ نواب صاحب کا سو فیصد کامیاب آپریشن کرے گا۔فریدی صاحب میں بالکل بے بس ہوں ایسا جھکی آدمی توآج تک میری نظروں سے نہیں گزرا۔“
” کرنل تیواری کی آپ فکر نہ کریں ۔ اس کاانتظام میں کر لوں گا آپ جتنی جلد ممکن ہو سکے ڈاکٹر شوکت سے مل کر معا ملات طے کر لیجئے۔“
” آپ کرنل تیواری کا کیا انتظام کریں گے۔ “
”انتظام کرنا کیسا وہ تو قریب قریب ہو چکا ہے ۔ “ فریدی نے سگار جلاتے ہوئے کہا۔
” میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔“
” تین دن کے بعد کرنل تیواری کا یہاں سے تبادلہ ہو جائے گا ۔ اوپر سے حکم آگیا ہے مجھے باوثوق ذرائع سے اطلاع ملی ہےلیکن خود کرنل تیواری کو ابھی تک اس کا علم نہیں انہیں اتنی جلدی جانا ہو گا کہ شاید وہ دھوبی کے یہاں سے اپنے کپڑے بھی نہ منگا سکیں۔ لیکن یہ راز کی بات ہے اسے اپنے تک محدود رکھئے گا۔“
” ارے یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے۔“ ڈاکٹر توصیف نے کہا۔
’‘ اچھا تو اب میں چلوں آپ کرنل تیواری کے تبادلے کی خبر سنتے ہی ڈاکٹر شوکت کویہاں لے آئےے گا۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت پھر کسی کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہ جا ئےگی۔ ہاں دیکھئے اس کا خیال ر ہے کہ میری ملاقات کا حال کسی پرظاہر نہ ہونے پائے خصوصاً نواب خاندان کے کسی فرد اور اس خبطی بوڑھے پر فیسر کو اس کی اطلاع نہ ہونے پائے صاحب مجھے تو وہ بوڑھا انتہائی خبیث معلوم ہوتا ہے۔“
” میںبھی اس کے بارے کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا “
” وہ آخر ہے کون “ فریدی نے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
” میرے خیال سے وہ نواب صاحب کا کوئی عزیز ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ نواب صاحب نے میرے ہی سامنے اس سے پرانی کوٹھی کا کرایہ نامہ لکھوایا تھا۔بلکہ میں نے اس پر گواہ کی حیثیت سے دستخط بھی کیے تھے۔“
” خیر اچھا اب میں اجازت چاہوں گا۔“ فریدی نے اٹھتے ہوئے کہا” مجھے امید ہے کہ آپ جلد ہی ڈاکٹر شوکت سے ملاقات کریں گے۔“
فریدی کی کار تیزی سے شہر کی طرف جا رہی تھی ۔آج اس کا دماغ بے انتہا الجھا ہو اتھا۔ بہر حال وہ جو مقصد لے کر راج روپ نگر آیا تھا اس میں اگر بالکل نہیں تو تھوڑی بہت کامیابی ضرور ہوئی تھی ۔ اب وہ آئندہ کے لئے پروگرام مرتب کر رہا تھا۔ جیسے جیسے وہ سوچتا جاتا سے اپنی کامیابی پر پورا یقین ہو تا جا رہا تھا۔“

سڑک کے دونوں طرف دور دور تک چھیول کی گھنی جھاڑیاں تھیں ۔ سڑک بالکل سنسان تھی ۔ ایک جگہ اسے بیچ سڑک پر ایک خالی تانگہ کھڑانظر آیا۔ وہ بھی اس طرح جیسے وہ خاص طور پر راستہ روکنے کے لےے کھڑا کیا گیا ہو فریدی نے کا ر کی رفتار دھیمی کر کے ہارن دینا شروع کیا لیکن دور و نزدیک کوئی دکھائی نہ دیتا تھا۔ سڑک زیادہ چوڑی نہ تھی۔ لہٰذا فریدی کار روک کر اترنا پڑاتانگہ کنارے لگا کر وہ کار کی طرف لوٹ ہی رہا تھا کہ اسے دور جھاڑیوں میں اک بھیانک چیخ سنائی دی کوئی بھرائی ہوئی آواز میں چیخ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بار بار چیخنے والے کا منہ دبا لیا جاتا ہو اور وہ گرفت سے نکلنے کے بعد پھر چیخنے لگتا ہو۔فرید نے جیب سے ریوالور نکال کرآواز کیطرف دوڑنا شروع کیا۔ وہ قد آدم جھاڑیوں سے الجھتا ہوا گرتا پڑتا جنگل میں گھسا جا رہا تھا دفعتاً ایک فائر ہوا اور ایک گولی سنسناتی ہوئی اس کے کانوں کے قریب سے نکل گئی وہ پھرتی کے ساتھ زمین پرلیٹ گیا لیٹے لیٹے رینگتا ہوا وہ ایک کھائی کی آڑ میں ہوگیا۔ اب پے درپے فائر ہونے شروع ہوگئے اس نے بھی اپنا پستول خالی کرنا شروع کر دیا دوسری طرف سے فائر ہونے بند ہوگئے۔ شاید گولیاں چلانے والا اپنے خالی پستول میں کارتوس چڑھا رہا تھافریدی نے کھائی کی آڑ سے سر ابھارا ہی تھا کہ فائر ہوا ۔ اگر وہ تیزی سے پیچھے کی طرف نہ گر گیا ہوتا تو کھوپڑی اڑہی گئی تھی دوسری طرف سے پھر اندھا دھند فائر ہونے لگے فریدی نے بھی دو تین فائر کےے اور پھر وہ چیختا کراہتا سڑک کی طرف بھاگا دوسری طرف سے اب بھی فائر ہو رہے تھے لیکن وہ گرتا پڑتابھاگا جارہا تھا کار میں پہنچتے ہی وہ تیز رفتاری سے شہر کی طرف روانہ ہوگیا۔
شام کا اخبا ر شائع ہوتے ہی شہر میں سنسنی پھیل گئی ۔ اخبار والے گلی کوچوں میں چیختے پھر رہے تھے۔ انسپکٹر فریدی کا قتل ایک ہفتے کے اند ر اندر آپ کے شہر مےںتین قتل شام کا تازہ پرچہ پڑھئے۔ اخبار میں پورا واقعہ درج تھا۔
آج دو بجے دن انسپکٹر فریدی کی کار پولیس ہسپتال کی کمپاﺅنڈ میں داخل ہوئی انسپکٹر فریدی کار سے اترتے وقت لڑکھڑا کر گر پڑے کسی نے ان کے داہنے بازو اور بائیں شانے کو گولیوں کا نشانہ بنایا دیا تھا۔ فوراً ہی طبی امدادپہنچائی گئی لیکن فریدی صاحب جاں بر نہ ہوسکے تین گھنٹے موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا رہ کر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لےے رخصت ہو گئے یقینا یہ ملک اور وقوم کے لےے ناقابل تلافی نقصان ہے۔
انسپکٹر فریدی غالباً سیتا دیوی کے قتل کے سلسلے میں تفتیش کر رہے تھے۔ لیکن انہوں نے اپنے سرکاری روزنامچے میں کسی قسم کی کوئی خانہ پوری نہیں کی۔چیف انسپکٹر صاحب کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ انہوں نے سراغرسانی کا کون سا طریقہ اختیار کیا تھا ابھی تک کوئی نہیں بتا سکتا کہ انسپکٹر فریدی آج صبح کہاں گئے تھے بظاہر ان کی کار پر جمی گرد اور پہیوں کی حالت بتاتی ہے کہ انہوں نے کافی لمبا سفر کیا تھا۔
انسپکٹر فریدی کی عمر تیس سال تھی وہ غیر شادی شدہ تھے، انہوں نے دو بنگلے اور ایک بڑی جائیداد چھوڑی ہے۔ ان کے کسی وارث کا پتہ نہیں چل سکا۔ “
یہ خبر آگ کی طرح آناً فاناً سارے شہر میں پھیل گئی محکمہ سراغرسانی کے دفتر میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ انسپکٹر فریدی کے دوستوں نے لاش حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں لاش دیکھنے تک کی اجازت نہیں دی گئیاور کئی خبر وں سے معلوم ہوا کہ پوسٹ مارٹم کرنے پر پانچ یا چھ زخم پائے گئے ہیں۔
یہ سب کچھ ہو رہا تھا لیکن سارجنٹ حمید نہ جانے کیوں چپ تھا۔ اسے اچھی طرح سے معلوم تھا کہ انسپکٹر فریدی راج روپ نگر گیا تھا لیکن اس نے اس کی کوئی اطلاع چیف انسپکٹر کو نہ دی۔ وہ نہایت اطمینان سے پولیس اور خفیہ پولیس کی بھا گ دوڑ کا جائزہ لے رہاتھا۔
دوسرے جاسوسوں اور بہتےرے لوگوں نے اس سے ہر طرح پوچھا لیکن اس نے ایک کوبھی کوئی تشفی بخش جواب نہ دیا۔ کسی سے کہتا کہ انہوں نے مجھے اپنا پروگرام نہیں بتایا تھا۔ کسی سے کہتا انہوں نے مجھ سے یہ تک تو بتایا نہیں تھا کہ انہوں نے اپنی چھٹیا ںکینسل کرا دی ہے پھر سراغرسانی کا پروگرام کیا بتاتے۔“

کسی کو یہ جواب دیتا کہ وہ اپنی اسکیموں میں کسی سے نہ تو مشورہ لیتے تھے اور نہ مل کر کام کرتے تھے۔
تقریباً دس بجے رات کو ایک اچھی حیثیت کا نیپالی چوروں کی طرح چھپتا چھپاتا سارجنٹ حمید کے گھر سے نکلا بڑی دیر تک یوںہی بے مصرف سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا پھر ایک گھٹیا سے شراب خانے میں گھس گیا۔ جب وہ وہاں سے نکلا تو اس کے پیر بری طرح ڈگمگا رہے تھے آنکھوں سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کثرت سے پی گیا ہو۔ وہ لڑکھڑا تا ہوا ٹیکسیوں کے اڈے کی طرف چل پڑا۔
”ول بائی شاپ ہم دور جانا مانگتا ہے۔“ ا س نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے کہا۔
” صاحب ہمیں فرصت نہیں ۔“ ٹیکسی ڈرائیور نے کہا۔
” او بابا پیشہ دے گا“ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کرپرس نکالتے ہوئے کہا۔
” نہیں نہیں صاحب مجھے فرصت نہیں ۔“ ٹیکسی ڈرائیور نے دوسری طرف منہ پھیرتے ہوئے کہا۔
”ارے لو ہمارا باپ ۔ تم بی شالا کیا یاد کرے گا۔“ اس نے دس دس کے تین نوٹ اسکے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا۔”اب چلے گا ہمارا باپ۔“
” بیٹھئے کہاں چلنا ہوگا ۔“ ٹیکسی ڈرائیور نے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
” جاﺅ ہم نہیں جانا مانگتا ہم تم کو تیس روپیہ خیرات دیا۔“ اس نے روٹھ کر زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
” ارے نہیں صاحب اٹھئے چلئے جہاں آپ کہیں آ پ کو پہنچا دوں چاہے جہنم ہی کیوں نہ ہوں۔“ٹیکسی ڈرائیور نے اس کے نشے کی حالت سے لطف اٹھاتے ہوئے ہنس کر کہا۔
” جہنم لے چلے گا۔“ نیپالی نے اٹھ کر پُر مسرت لہجے میں کہا۔ ” تم بڑا اچھا ہے تم ہمارا باپ ہے تم ہمارا بھائی ہے تم ہمارا ماں ہے تم ہمارا بی بی ہےتم ہمارا بی بی کاشالا ہے تم ہمارا تم ہمارا تم ہمارا کیا ہے۔“
” صاحب ہم تمہارا سب کچھ ہے بو لو کہاں چلے گا۔“ ٹیکسی ڈرائیور نے اس کا ہاتھ اپنی گردن سے ہٹاکر ہنستے ہوئے کہا۔
” جدھر ہم بتلانا مانگتا تم جانا مانگتا شالا تم نہیں جانتا کہ ہم بڑا لوگ ہے ہم تم کو بخشش دے گا “ مد ہوش نیپالی نے پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔” شیدھا چلو“
دوسرے موڑ پر پہنچ کر ٹیکسی راج روپ نگر کی طرف جا رہی تھی۔
ڈاکٹر شوکت انسپکٹر فریدی کی موت کی خبر سن کر ششدررہ گیا۔ اسے حیرت تھی کہ آخر یک بیک یہ کیا ہو گیا لیکن وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس کی موت سیتا دیوی کے قتل کی تفتیش کے سلسلے میں واقع ہوئی ہے۔ و ہ یہی سمجھ رہا تھا کہ فریدی کے کسی پرانے دشمن نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ہوگا۔ محکمہ سراغرسانی والوں کے لئے دشمنوں کی اچھی خاصی تعداد پیدا کر لینا کوئی تعجب کی بات نہیں اس پیشے کے کامیاب ترین آدمیوں کی موتیں عموماًاسی طرح واقع ہوتی ہیں ۔
سیتا دیوی کے قتل کے متعلق اس کی اب تک یہی رائے تھی کہ یہ کام ان کے کسی ہم مذہب کا تھا جس نے مذہبی جذبات سے اندھا ہوکر آخر کار انہیں قتل کر ہی دیا انسپکٹر فریدی کایہ خیال کہ وہ حملہ دراصل اسی پر تھا۔ رفتہ رفتہ اس کے ذہن سے مٹتا جا رہا تھا یہی وجہ تھی کہ جب اسے راج روپ نگر سے ڈاکٹر توصیف کا خط ملا تو اس نے اس قصبے کے نام پردھیان تک نہ دیا۔
دوسرے دن ڈاکٹر توصیف خود اس سے ملنے کے لئے آیا ۔ اس نے نواب صاحب کے مرض کی ساری تفصیلات بتا کر اسے آپریشن کرنے پر آمادہ کر لیا۔
ڈاکٹر شوکت کی کارراج روپ نگر کی طرف جا رہی تھی ۔ وہ اپنے اسسٹنٹ اور دو نرسوں کو ہدایت کر آیا تھا کہ وہ چار بجے تک آپریشن کا ضروری سامان لے کر راج روپ نگر پہنچ جائےں۔“

نواب صاحب کے خاندان والے ابھی تک کرنل تیواری کے تبادلے اور توصیف کے نئے فیصلے سے ناواقف تھے۔ ڈاکٹر شوکت کی آمد سے وہ سب حیرت میں پڑ گئے۔ خصوصاً نواب صاحب کی بہن توآپے سے با ہر ہو گئےں۔
”ڈاکٹر صاحب “ وہ توصیف سے بولیں ۔” میں آپ کی اس حرکت کا مطلب نہیں سمجھ سکی۔“
” محترمہ مجھے افسوس ہے کہ مجھے آپ سے مشورے کی ضرورت نہیں ۔“ توصیف نے بے پروائی سے کہا۔
” کیا مطلب ؟“ نواب صاحب کی بہن نے حیرت اور غصے کے ملے جلے انداز میں کہا۔
” مطلب یہ کہ اچانک کرنل تیواری کا تبادلہ ہو گیا ہے اور اب اس کے علاوہ کوئی اور صورت باقی نہیں رہ گئی۔“
” کرنل تیواری کا تبا دلہ ہو گیا ہے۔“
” لیکن مجھے تو اس کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔“
” ان کا خط ملا حظہ فرمائےے۔“ڈاکٹرتوصیف نے جیب سے ایک لفافہ نکال کر ان کی سامنے ڈال دیا ۔ وہ خط پڑھنے لگیں۔کنور سلیم اور نواب صاحب کی بھانجی نجمہ بھی جھک کر دیکھنے لگی۔
” لیکن میں آپریشن تو ہر گز نہیں ہونے دونگی۔ “ بیگم صاحبہ نے خط واپس کرتے ہوئے کہا۔
” دیکھئے محترمہ یہاں آپ کی رائے کا کوئی سوال نہیں رہ جاتا نواب صاحب کے طبی مشیر ہونے کی حیثیت سے ا سکی سو فیصد ذمہ داری مجھ پر عاید ہوتی ہے۔کرنل تیواری کی عدم موجودگی میں میں قانوناً اپنے حق کو استعمال کر سکتا ہوں۔“
” قطعی قطعی ڈاکٹرصاحب “ کنور سلیم نے سنجیدگی سے کہا۔” اگر ڈاکٹر شوکت میرے چچا کو اس مہلک مرض سے نجات دلادیں تو اس سے بڑھ کر اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ میرا خیال بھی یہی ہے کہ اب آپریشن کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔“
”سلیم “ نواب صاحب کی بہن نے گرج کر کہا۔
”پھو پھی صاحبہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایک محبت کرنے والی بہن کا دل رکھتی ہیں۔ لیکن ان کی صحت کی خاطر دل پر پتھر رکھنا ہی پڑے گا۔“
” کنور بھےا آپ اتنی جلد بدل گئے۔“ نجمہ نے کہا۔
” کیا کروں نجمہ اگر کرنل تیواری موجود ہوتے تو خود میں کبھی آپریشن کے لئے تیا ر نہ ہوتا لیکن ایسی صورت میں تمہی بتاﺅ چچا جان کب تک یونہی پڑے رہیں گے۔“
” کیوں صاحب کیا آپرےشن کے علاوہ کوئی صورت نہیں ہو سکتی ؟“ نواب صاحب کی بہن نے ڈاکٹر شوکت سے پوچھا۔
” یہ تو میں مریض کو دیکھنے کے بعد ہی بتا سکتا ہوں ۔“ ڈاکٹر شوکت نے مسکرا کر کہا۔
” ہاں ہاں ممکن ہے اس کی نو بت ہی نہ آئے۔“ ڈاکٹر توصیف نے کہا۔
نواب صاحب جس کمرے میں تھے وہ اوپری منزل میں واقع تھا۔ سب لو گ نواب صاحب کے کمرے میں آئے وہ کمبل اوڑھے چت لیٹے ہوئے تھے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ گہری نیند میں ہوں۔
ڈاکٹر شوکت اپنے آلات کی مدد سے ان کا معائنہ کرتا رہا۔
” مجھے افسوس ہے بیگم صاحبہ کہ آپریشن کے بغیر کام نہ چلے گا۔“ ڈاکٹر شوکت نے اپنے آلات کو ہینڈ بےگ مےں رکھتے ہوئے کہا۔
پھر سب لوگ نیچے آگئے۔
ڈاکٹر شوکت نے نواب صاحب کے خاندان والوں کو کافی اطمینان دلایا ان کی تشفی کے لئے اس نے ان لوگوں کو اپنے بے شمار خطرناک کیسوں کے حالات سنا ڈالے۔“
نواب صاحب کاآپریشن تو ان کے مقابلے میں کوئی چیز نہ تھا۔
نواب صاحب کی بہن اور انکی بانجی کو کسی طرح اطمینان ہی نہ ہوتا تھا۔
” پھو پھی صاحبہ آپ نہیں جانتیں۔“ بیگم صاحبہ سے سلیم نے کہا۔” ڈاکٹر شوکت صاحب کا ثانی پورے ہندوستا ن میں نہیں مل سکتا۔“
” میں کس قابل ہوں۔“ ڈاکٹر شوکت نے خاکسارانہ انداز میں کہا” سب خدا کی مہربانی اور اس کا احسان ہے۔“
” ہاں یہ تو بتائےے کہ آپریشن سے قبل کوئی دوا وغیرہ دی جائے گی ۔“ کنور سلیم نے پوچھا۔
” فی الحال میں ایک انجکشن دوں گا۔“
” اور آپریشن کب ہوگا۔“ نواب صاحب کی بہن نے پوچھا۔
” آج ہی آٹھ بجے رات سے آپریشن شروع ہوجائے گا۔ چار بجے تک میرا اسسٹنٹ اور دو نرسیں یہاں آجائیں گی۔“
” میرا تو دل گھبرا رہا ہے ۔ “ نواب صاحب کی بھانجی نے کہا۔
” گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔“ ڈاکٹر شوکت نے کہا۔ میں اپنی ساری کو ششیں صرف کردوں گا۔ کیس کچھ ایسا خطرناک بھی نہیں ۔ خدا تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے کہ آپریشن کامیاب ہوگا۔ آپ لوگ قطعی پریشان نہ ہوں۔ “
ڈاکٹر صاحب آپ اطمینان سے اپنی تیاری مکمل کیجئے۔“ کنور سلیم ہنس کر بولا ” بیچاری عورتوں کے بس میں گھبرانے کے علاوہ او رکچھ نہیں۔“
نواب صاحب کی بہن نے اسے تیز نظروں سے دیکھا اور نجمہ کی پیشانی پر شکنیں پڑ گئیں ۔
” میرا مطلب ہے پھو پھی صاحبہ کہ کہیں ڈاکٹر صاحب آپ لوگوں کی حالت دیکھ کر بددل نہ ہوجائیں۔ اب چچا جان کو اچھا ہی ہوجانا چاہئے ۔ کوئی حد ہے اٹھارہ دن ہوگئے۔ ابھی تک بے ہوشی زائل نہیںہوئی۔“
” تم اس طرح کہہ رہے ہو گویا ہم لوگ انہیں صحت مند دیکھنے کے خواہشمند نہیں ہیں “ بیگم صاحبہ نے منہ بنا کر کہا۔
” خیر ۔خیر“ فیملی ڈاکٹر توصیف نے کہا” ہاں تو ڈاکٹر شوکت میرے خیال سے اب آپ انجکشن دے دیجئے۔“
ڈاکٹر شوکت،ڈاکٹر توصیف اور کنور سلیم بالائی منزل پر مریض کے کمرے میں چلے گئے اور دونوں ماں بیٹی ہال ہی میںرک کر آپس میں سرگوشیاں کرنے لگیں۔نجمہ کچھ کہہ رہی تھی اور نواب صاحب کی بہن کے ماتھے پر شکنیں ابھر رہی تھیں۔ انہوں نے دو تین بار زینے کی طرف دیکھا اور باہر نکل گئیں۔
انجکشن سے فارغ ہوکر ڈاکٹر شوکت، کنور سلیم اورڈاکٹر توصیف کے ہمراہ باہر آیا۔
” اچھا کنور صاحب اب ہم لوگ چلیں گے چار بجے تک نرسیں اور میرا اسسٹنٹ آ پ کے یہاں آجائیں گے اور میں بھی ٹھیک چھ بجے یہاں پہنچ جاﺅں گا۔ “ ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
” تو یہیں قیام کیجئے نا۔“ سلیم نے کہا۔
” نہیں ڈاکٹر توصیف کے یہاں ٹھیک رہے گا اور پھر قصبے میں مجھے کچھ کام بھی ہے۔ ہم لوگ چھ بجے تک یقینا آجائیں گے۔“ڈاکٹر کار میں بیٹھ گئے لیکن ڈاکٹر شوکت کی پے در پے کوششوں کے باوجود بھی کار اسٹارٹ نہ ہوئی۔
”یہ تو بڑی مصیبت ہوئی۔“ ڈاکٹر شوکت نے کار سے اتر کر مشین کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
” فکر مت کیجئے میں اپنی گاڑی نکال کر لاتا ہوں ۔“کنور سلیم نے کہا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا گیراج کی طرف چلاگیا۔ جو پرانی کوٹھی کی قریب واقع تھا۔ “

تھوڑی دیر بعد نواب صاحب کی بہن آگئیں۔
”ڈاکٹر شوکت کی کار خراب ہوگئی کنور صاحب کار کے لئے گئے ہیں۔“ ڈاکٹر توصیف نے ان سے کہا۔
”اوہ کار تو میں نے صبح ہی شہر بھیج دی ہے او ر بھائی جان والی کار عرصے سے خراب ہے۔“
” اچھا تو آئےے ڈاکٹر صاحب ہم لوگ پیدل ہی چلیں صرف ڈیڑھ میل تو چلنا ہے۔“ ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
” ڈاکٹر توصیف ! مجھے آپ سے کچھ مشورہ کرنا ہے۔“ نواب صاحب کی بہن نے کہا۔“ اگر آپ لوگ شام تک یہیں ٹھہریں تو کیا مضائقہ ہے۔“
” بات دراصل یہ ہے کہ مجھے چند ضروری تیاریاں کرنی ہیں۔“ ڈاکٹر شوکت نے کہا۔” ڈاکٹر صاحب کو آپ روک لیں ۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔“
آپ کچھ خیال نہ کیجئے گا۔“ بیگم صاحبہ بولیں ” اگر کار شام تک واپس آگئی تو میں چھ بجے تک بھجوادوں گی ورنہ پھر کسی دوسری سواری کا انتظام کیا جائے گا۔“
” شام کو تو میں ہر صورت میںپیدل ہی آﺅں گا کیونکہ آپریشن کے وقت میں چاک وچوبند رہنا چاہتا ہوں ۔“ شوکت نے کہا اور قصبے کی طرف روانہ ہوگیا راہ میں کنور سلیم ملا۔
”مجھے افسوس ہے ڈاکٹر کہ اس وقت کار موجود نہیں آپ یہیں رہےے آخر اس میں حرج کیاہے۔“
” حرج تو کوئی نہیں لیکن مجھے تیاری کرنی ہے۔“ ڈاکٹر شوکت نے جواب دیا۔
” اچھا تو چلئے میں آپکو چھوڑ آﺅں ۔“
” نہیں شکریہ ۔ راستہ میرا دیکھا ہوا ہے۔“
ڈاکٹرشوکت جیسے ہی پرانی کوٹھی کے قریب پہنچا اسے ایک عجیب قسم کا وحشیانہ قہقہہ سنائی دیا۔عجیب الخلقت بوڑھا پروفیسر عمران قہقہے لگاتا اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔
” ہیلو ہیلو“ بوڑھا چیخا۔” اپنے مکان کے قریب اجنبیوں کو دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔“
ڈاکٹرشوکت رک گیا اسے محسوس ہوا جیسے اس کے جسم کے سارے روئیں کھڑے ہو گئے ہوں ۔ اتنی خوفناک شکل کا آدمی آج تک اس کی نظروں سے نہ گذرا تھا۔
” مجھ سے ملئے۔ میں پرفیسر عمران ہوں۔“ اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ”اور آپ۔“
” مجھے شوکت کہتے ہیں۔“ شوکت نے بہ دلِ نخواستہ ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
لیکن اس نے محسوس کیا کہ ہاتھ ملاتے وقت بوڑھا کچھ سست پڑ گیا تھا بوڑھے نے فوراً ہی اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور قہقہہ لگاتا، اچھلتا کودتا، پھر پرانی کوٹھی میں واپس چلا گیا۔
ڈاکٹرشوکت متحیر کھڑا تھا دفعتاً قریب کی جھاڑیوں سے ایک بڑا سا کتا اس پر جھپٹا۔ ڈاکٹرشوکت گھبرا کر کئی قدم پیچھے ہٹ گیا کتے نے ایک جست لگائی اور بھیانک چیخ کے ساتھ زمین پر آرہا چند سیکنڈ تک وہ تڑپا او ر پھر بے حس و حرکت ہو گیا۔ یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ ڈاکٹرشوکت کو کچھ سمجھنے کا موقعہ نہ مل سکا۔اس کے بعد کچھ سمجھ ہی میں نہ آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
” ارے یہ میرے کتے کو کیا ہوا ٹائیگر، ٹائیگر“ ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ شوکت چونک پڑا۔ سامنے نواب صاحب کی بھانجی کھڑی تھی۔

”مجھے خود حیرت ہے“ شوکت نے کہا۔
” میں نے اس کے غرانے کی آواز سنی تھی کیا یہ آپ پر جھپٹا تھا لیکن اس کی سزا موت تو نہ ہوسکتی تھی۔“ وہ تیز لہجے میں بولی۔
”یقین مانئے محترمہ مجھے خود حیرت ہے کہ اسے یک بیک ہوکیا گیا اگر آپ کو مجھ پر شبہ ہے تو بھلا بتائےے میں نے اسے کیونکر مارا؟
نجمہ کتے کی لاش پر جھکی اسے پکار رہی تھی۔” ٹائیگر، ٹائیگر۔“
” بے سود ہے محترمہ یہ ٹھنڈا ہو چکا ہے۔“شوکت کتے کی لاش کو ہلاتے ہوئے بولا۔
” آخر اسے ہو کیا گیا۔“ نجمہ نے خوفزدہ انداز میں پوچھا۔
” میں خود یہی سوچ رہا ہوں “ بظاہر کوئی زخم بھی نظر نہیں آیا۔“
” سخت حیرت ہے“
دفعتاً ڈاکٹرشوکت کے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا وہ اسکے پنجوں کا معائنہ کرنے لگا۔
” اوہ “ اسکے منہ سے حیرت کی چیخ نکلی۔ اور اس نے کتے کے پنجے میں چبھی ہوئی گراموفون کی ایک سوئی کھنچ لی اور حیرت سے اسے دیر تک دیکھتا رہا۔
” دیکھئے محترمہ غا لباً یہ زہریلی سوئی ہی آ پ کے کتے کی موت کا سبب بنی ہے۔ “
”سوئی “ نجمہ نے چونک کر کہا۔ گراموفون کی سو ئی کیا مطلب۔“
”مطلب تو میں بھی نہیں سمجھا۔ لیکن یہ وثوق کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ یہ سوئی خطرناک حد تک زہریلی ہے مجھے انتہائی افسوس ہے ۔کتا بہت عمدہ تھا۔“
” لیکن یہ سوئی یہاںکیسے آئی ؟“ وہ پلکیں جھپکاتی ہوئی بولی۔
”کسی سے گر گئی ہوگی۔“
” عجب بات ہے۔“
شوکت نے وہ سوئی احتیاط سے تھرما میڑ رکھنے والی نلکی میں رکھ لی۔ اور بولا ۔
”یہ ایک دل چسپ چیز ہے۔ میں اس کاکیمیاوی تجزیہ کروں گا آپ کے کتے کی موت پر ایک بار پھر اظہار افسوس کرتا ہوں۔“
” اوہ ڈاکٹر میں آپ سے سچ کہتی ہوں کہ میں اس کتے کو بہت عزیز رکھتی تھی۔“اس نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
” واقعی بہت اچھا کتا تھا اس نسل کے گرے ہاونڈ کمیاب ہیں۔“ شوکت نے جواب دیا۔
” ہونے والی بات تھی افسوس تو ہوتا ہے مگر اب ہو ہی کیاسکتا ہے مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ سوئی یہاں آئی کیسے“
” میں خود یہی سوچ رہا ہوں ۔“ ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
” ہو کتا ہے کہ یہ سوئی اس خبطی بوڑھے کی ہو۔ اس کے پاس عجیب و غریب چیزیں ہیں منحوس کہیں کا“
” کیا آپ انہیں صاحب کو تو نہیں کہہ رہی ہیں جو ابھی اس کو ٹھی سے نکلے تھے۔“
” جی ہاں ! وہی ہوگا۔“ نجمہ نے جواب دیا۔
” یہ کون صاحب ہیں۔ بہت ہی عجیب وغریب آدمی معلوم ہوتے ہیں۔“ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
”یہ ہمارا کرایہ دار ہے پروفیسر عمران لوگ کہتے ہیں کہ ماہر فلکیات ہے مجھے تو یقین نہیں آتا وہ دیکھئے اس نے مینار پر ایک دور بین بھی لگا رکھی ہے۔“
” پروفیسر عمران ماہر فلکیات یہ بہت مشہور آدمی ہیں۔ میں نے ان کی کئی کتابیں پڑھی ہیں اگر وقت ملا ۔تو میں ان سے ضرور ملوں گا۔“
” کیا کیجئے گا مل کر دیوانہ ہے وہ ہو ش ہی میںکب رہتا ہے وہ جانور سے بھی بد تر ہے“ نجمہ نے کہا ” خیر ہٹائےے ان باتو ں کو ڈاکٹر صاحب آپریشن میں کوئی خطرہ تو نہیں؟“
” جی نہیں مطمئن رہئے انشاءاللہ تعالیٰ کوئی گڑ بڑ نہ ہونے پائے گی۔“
ڈاکٹر شوکت نے کہا” اچھا اب میں چلوں مجھے آپریشن کی تیاری کرنا ہے۔“
ڈاکٹر شوکت قصبے کی طرف چل پڑا ایک شخص کھائیوں اور جھاڑیوں کی آڑ لیتا ہوا اس کا تعاقب کر رہا تھا۔
راستے بھر شوکت کا ذہن سوئی اور کتے کی موت میں الجھا رہا ساتھ ہی ساتھ وہ خلش بھی اس کے دل میں کچوکے لگا رہی تھی جو نجمہ سے گفتگو کرنے کے بعدپیدا ہو گئی تھی اسکا دل تو یہ یہی چاہ رہا تھا کہ وہ زندگی بھرکھڑا اس سے اسی طرح گفتگو کئے جائے۔عورتوں سے بات کرنا اس کے لئے نئی بات نہ تھی۔ وہ قریب قریب دن بھر نرسوں میں کھڑا رہتا تھا اور پھر اس کے علاوہ اس کا پیشہ ایسا تھا کہ اور دوسری عورتوں سے بھی اس کا سابقہ پڑتا رہتا تھا۔ لیکن نجمہ میں نہ جانے ایسی کونسی بات تھی جو رہ رہ کر اسکا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے پیش کردیتی تھی۔
ڈاکٹر توصیف کے گھر پہنچتے ہی وہ سب کچھ بھول گیا کیونکہ اب وہ آپریشن کی اسکیم مرتب کر رہا تھا ۔ وہ ایک زندگی بچانے جا رہا تھا ایک ماہر فن کی طرح اس کا دل مطمئن تھا اسے اپنی کامیابی کا اسی طرح یقین تھا جس طرح اس کا کہ وہ گیارہ بجے کھانا کھائےگا۔
تقریبا ایک گھنٹے کے بعد ڈاکٹر توصیف بھی نواب صاحب کی کار پر آگیا۔
” کہئے ڈاکٹر صاحب کوئی خاص بات “ ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
” ایسی تو کوئی بات نہیں البتہ کتے کی موت سے ہر شخص حیرت زدہ ہے لائےے دیکھوں وہ سوئی“ڈاکٹر توصیف نے سوئی لینے کےلئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
” یہ دیکھئے بڑی عجیب بات ہے معلوم نہیں کس زہر میں بجھائی گئی ہے۔“ ڈاکٹر شوکت تھرما میٹر کی نلکی سے سوئی نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔
” دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گیا۔“
” گراموفون کی سوئی ہے۔“ ڈاکٹر توصیف نے سوئی کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ” معلوم نہیں کس زہر میں بجھائی گئی ہے۔“
” میرے خیال میں پوٹاشیم سایا نائیڈ یا ا س قبیل کا کوئی زہر ہے،ڈاکٹر شوکت نے سوئی کو لے کر پھر تھرمامیٹر کی نلکی میں رکھتے ہوئے کہا۔
” مجھے تو یہ سوئی خبیث پروفیسر کی معلوم ہوتی ہے۔“ ڈاکٹر توصیف نے کہا۔
”اس کی عجیب و غریب چیزیں اور حرکتیں دور تک مشہور ہیں۔“
” مجھے ابھی تک پرفیسر کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں معلوم لیکن میں اس پراسرار شخصیت کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں ویسے تو میں یہ جانتا ہوں کہ وہ ایک ماہر فلکیات ہے۔“ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
” اس کی زندگی ابھی تک پردہ راز میں ہی ہے۔“ ڈاکٹر توصیف نے کہا۔” لیکن اتنا میں بھی جانتا ہوں کہ اب سے دوسال پیشتر وہ ایک صحیح الدماغ آدمی تھا۔

اس کے بعد اچانک اس کے عادات و اطوار میںتبدیلیاں ہونی شروع ہو گئیںاور اب تو سبھی کا یہ خیال ہے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔“
”میں نے تو صاحب آج تک اتنا بھےانک آدمی آج تک نہیں دیکھا“ ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
تھوڑی دیر تک خاموشی رہی۔ اس کے بعد ڈاکٹر توصیف بولا۔” ہاں تو آپ کا کیا پرگرام ہے میرے خیال سے تو اب دوپہر کا کھانا کھالینا چاہیے۔“
کھانے کے دوران آپریشن اور دوسرے موضوعات پرگفتگو ہوتی رہی۔ اچانک ڈاکٹر شوکت کو کچھ یا د آگیا۔
ڈاکٹر صاحب میںجلدی میں اپنے اسسٹنٹ کو کچھ ضروری ہدایات دینا بھول گیا ہوں اگر آپ کوئی ایسا انتظام کرسکیں کہ میرا رقعہ اس تک پہنچا دیا جائے تو بہت اچھا ہو۔“ ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
” چلئے اب دو کام ہوجائےں گے۔“ ڈاکٹر توصیف نے کہا میں دراصل شہر ہی جانے کے لئے نواب صاحب کی کار لایا تھا۔ آپ رقعہ دے دیجئے گا اور ہاں کیوں نہ آپ کے ساتھیوں کو اپنے ساتھ لیتا آﺅں۔“
” اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔“
” اس رقعہ کے علاوہ کوئی اور کام؟“
” جی نہیں شکریہ میرے خیال سے آپ ان لوگوں کو اسی طرف سے کوٹھی لیتے جائےے گا۔“
” بہتر ہے چھ بجے آپ کے لئے کار بھجوادی جائے گی ۔“
”نہیںا س کی ضرورت نہیں میں پیدل ہی آﺅں گا۔“
© ©”کیوں؟“
بات دراصل یہ ہے ڈاکٹر صاحب کہ آپریشن ذرا نازک ہے میں چاہتا ہوں کہ آپریشن سے قبل اتنی ورزش ہو جائے جس سے جسم میں چستی پیدا ہوسکے۔“
”ڈاکٹر شوکت میں آپ کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا در حقیقت ایک اچھے ڈاکٹر کو ایسا ہی ہونا چاہیے“
ڈاکٹر توصیف کے چلے جانے بعد ڈاکٹر شوکت نے یکے بعد دیگرے وہ کتابیں پڑھنا شرو ع کیں جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ ایک کاغذ پر پینسل سے کچھ ڈائیگرام بنائےاور دیر تک انہیں دیکھتا رہا پرانے ریکارڈوں کے کچھ فائل دیکھےانہی مشغولیات میںدن ختم ہوگیا۔ تقریباً پانچ بجے اس نے کتابیں اور فائل ایک طرف رکھ دئےے۔ اسے ٹھیک چھ بجے یہاں سے روانہ ہونا تھا دسمبر کا مہینہ تھا۔ شام کی کرنوں کی زردی پھیکی پھیکی سرخی میں تبدیل ہو تی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر توصیف کا نوکر انڈے کی سینڈوچ اور کافی لے آیا۔ رات کا کھانا سلیم کی درخواست کے مطابق اسے کوٹھی میں کھانا تھا اس لئے اس نے صرف ایک سینڈوچ کھائی اوردوکپ کافی پینے کے بعد سگریٹ سلگا کرٹہلنے لگا۔ گھڑی نے چھ بجائے اس نے کپڑے پہنے اور چسٹر کاندھے پر ڈال کر روانہ ہوگیا۔ وہ آہستہ آہستہ ٹہلتا ہوا جارہا تھا چاروں طرف تاریکی پھیل گئی تھی سرک کے دونوں طرف گھنی جھاڑیاں اور درختوں کی لمبی قطاریں تھیں جن کی وجہ سے سڑک خصوصا اور زیادہ تاریک ہو گئی تھی۔ لیکن ڈاکٹر شوکت آپریشن کے خیال میں مگن بے خوف چلا جارہاتھا اس سے تقریباً پچاس گز پیچھے ایک دوسرا آدمی جھاڑیوںسے لگا ہوا چل رہا تھا شاید اس نے ربڑ سول کے جوتے پہن رکھے تھے جس کی وجہ سے ڈاکٹر شوکت اس کے قدموں کی آواز نہیںسن رہا تھا۔ ایک جگہ ڈاکٹر شوکت سگریٹ سلگانے کے لئے رکا ساتھ ہی وہ شخص بھی رک کر جھا ڑیوں کی اوٹ میں چلا گیا۔ جیسے ہی شوکت نے چلنا شروع کیاوہ پھر جھاڑیوں سے نکل کر اسی طرح اس کا تعاقب کرنے لگا۔
سڑک زیادہ چلتی ہوئی نہ تھی۔ وجہ یہ تھی یہ سڑک محض کو ٹھی کے لئے بنائی گئی تھی۔ اگر نواب صاحب نے اپنی کوٹھی بستی کے باہر نہ بنوائی ہوتے۔

تو پھر اس سڑک کا کوئی وجود بھی نہ ہوتا۔شوکت کے وزنی جوتو ں کی آواز اس سنسان سڑک پر اس طرح گونج رہی تھی جیسے وہ جھاڑیوں میں دبک کر ”ٹیںٹیں ریں ریں “ کرنے والے جھینگروں کو ڈانٹ رہی ہو شوکت چلتے چلتے ہلکے سروں میںسیٹی بجانے لگا۔ اسے اپنے جوتوں کی آواز سیٹی کی دھن پر تال دیتی معلوم ہو رہی تھی۔کسی درخت پر ایک بڑے پرندے نے چونک کر اپنے پر پھڑ پھڑائے اور اڑ کر دوسری طرف چلا گیا جھاڑیوں کے پیچھے قریب ہی گیدڑوں نے چیخنا شروع کر دیا جو شخص ڈاکٹر شوکت کا پیچھا کر رہا تھا اس کا اب کہیںپتہ نہ تھا کچھ آگے بڑھ کر بہت زیادہ گھنے درختوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہاں پر دونوں طرف کے درختوں کی شاخیں آپس میں مل کر اس طرح گنجان ہوگئیں تھیں کی آسمان نہیں دکھائی دیتا تھا ڈاکٹر شوکت دنیاءمافیہا سے بے خبر اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا۔ اچانک اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور ہاتھ اوپر اٹھ گئے اس کے گلے میں ایک موٹی سی رسی کا پھندا پڑا ہواتھاآہستہ آہستہ پھندے کی گرفت تنگ ہوتی گئی اور ساتھ ہی ساتھ وہ اوپر اٹھنے لگا گلے کی رگیں پھول رہی تھیں آنکھیں حلقوں سے ابلی پڑی تھیں اس نے چیخنا چاہا لیکن آواز نہ نکلی اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اس کا دل کنپٹیوں اور آنکھوں میں دھڑک رہا ہو۔آہستہ آہستہ اسے تاریکی گہری ہوتی ہوئی معلوم ہوئی۔ جھینگروں اور گیدڑوں کا شور دور خلا میں ڈوبتا جا رہاتھا۔ پھربالکل خاموشی چھا گئی۔ وہ زمین سے دوفٹ کی بلندی پر جھول رہا تھا۔کوئی اسی درخت پر سے کود کر جھا ڑیوں میں غائب ہوگیا پھر ایک آدمی اس کی طرف دوڑ کر آتا دکھائی دیا اسکے قریب پہنچ کر اس نے ہاتھ ملتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا دوسرے لمحے میں وہ پھرتی سے درخت پر چڑھ رہاتھا ایک شاخ سے دوسری شاخ پر کودتا ہوا وہ اس ڈال پر پہنچ گیا، جس سے رسی بندھی ہوئی تھی اس نے رسی ڈھیلی کر کے آہستہ آہستہ ڈاکٹر شوکت کے پیر زمین پر ٹکا دئےے پھر رسی کواسی طرح باندھ کر نیچے اتر آیا اس نے جیب سے چاقو نکال کر رسی کاٹی اور شوکت کو ہاتھوں پر سنبھالے ہوئے سڑک پر لٹا دیا پھندا ڈھیلا ہوتے ہی بے ہوش ڈاکٹر گہری گہری سانسیں لے رہاتھا۔ پر اسرار اجنبی نے دیا سلائی جلاکراس کے چہرے پر نظر ڈالی ۔ آنکھوں کے پپوٹوں میں جنبش پیدا ہوچکی تھیایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ دس پانچ منٹ کے بعد ہوش میں آجائے گا۔ دو تین منٹ گزر جانے پرا س کے جسم میں حرکت پیدا ہوئی اور اجنبی جلدی سے جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک کراہ کے ساتھ وہ اٹھ گیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگاآہستہ آہستہ کچھ دیر قبل کے واقعات اس کے ذہن میں گونج اٹھے بے اختیار اس کا ہاتھ گردن کی طرف گیا۔لیکن اب وہاں رسی کا پھندا نہ تھا۔ البتہ گردن بری طرح دکھ رہی تھی اسے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ کس طرح بچ گیا اب اسے فریدی مرحوم کے الفاظ بری طرح یاد آرہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ سیتا دیوی کی خواب کی بڑبڑاہٹ بھی یاد آگئی تھی” راج روپ نگر“ اس کے سارے جسم سے ٹھنڈا ٹھنڈا پسینہ چھوٹ پڑا۔ وہ سوچنے لگا۔ وہ بھی کتنا احمق تھاکہ اسنے فریدی کے الفاظ بھلادئےے اور ااس خوفناک جگہ پر اندھیری رات میں تنہا چلا آیا اس کی جان لینے کی یہ دوسری کوشش تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس نیپالی کا نقشہ پھر گیا جس نے اسے دھمکی دی تھی پھراچانک وہ زہریلی سوئی یاد آئی اور پروفیسر کا بھیانک چہرہ جو اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے دیکھا تھا اور ٹھیک اسی جگہ کتا بھی اچھل کر گرا تھا تو کیاپروفیسر لیکن آخر کیوں ؟یہ سب سوچتے سوچتے اسے اپنی موجودہ حالت کا خیال آیا اور وہ کپڑے جھاڑتا ہواکھڑا ہوگیا چسٹر قریب ہی پڑا تھا اس نے جلدی سے چسٹر اٹھاکر کندھے پر ڈالا اور تیزی سے کوٹھی کی طرف روانہ ہوگیا اس نے سوچا کہ گھڑی میں وقت دیکھے لیکن پھر دیا سلائی جلا کر دیکھنے کی ہمت نہ پڑی“
کوٹھی میں سب لوگ بے صبری سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اس نے سات بجے آنے کا وعدہ کیا تھالیکن اب آٹھ بج رہے تھے۔
”شوکت بہت ہی بااصول آدمی معلوم ہوتا ہے نہ جانے کیا بات ہے۔“ ڈاکٹر توصیف نے باغ میں ٹہلتے ہوئے کہا۔
نجمہ بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھ رہی تھی۔
” کیا بات ہو سکتی ہے۔“کنور سلیم نے پنجوں کے بل کھڑے ہوتے ہوئے پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اندھیرے میںگھورتے ہوئے کہا۔
”میرا خیال ہے کہ وہ دیر میں گھر سے روانہ ہوا میں تو کہہ رہاتھا کہ کاربھجوادوںگا لیکن اس نے کہاکہ میں پیدل ہی آﺅں گا۔
آں یہ کون آرہا ہے ہلوڈاکٹر بھئی انتظار کرتے کرتے آنکھیں پتھراگئیں۔“
ڈاکٹر شوکت برآمدے میںداخل ہوچکا تھا ہ راستے بھر اپنے چہرے سے پریشانی کے آثار مٹانے کو کوشش کرتا آیاتھا۔
” مجھے افسوس ہے“ڈاکٹر شوکت نے مسکراتے ہوئے کہا” اپنی حماقت کی وجہ سے چلتے وقت ٹارچ لانا بھول گیا نتیجہ یہ ہو اکہ راستہ بھول گیا۔“
” لیکن آپ کے سر میں یہ اتنے سارے تنکے کہاں سے آگئے جی وہاں نہیں پیچھے کی طرف“ نجمہ نے مسکرا کر کہا۔
” تنکے اوہ کچھ نہیں ہٹایئے بھی کوئی یہ ایسی خاص بات نہیں ۔“ڈاکٹر شوکت نے کچھ بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
” نہیں نہیں بتائےے نا آخر بات کیاہے؟“سلیم نے سنجیدگی سے کہا۔
” ارے وہ تو ایک پاگل کتا تھا راہ میں اس نے مجھے دوڑایااندھیرا کافی تھا۔ میں ٹھوکر کھا کر گر پڑا وہ تو کہئے ایک راہ گیر ادھر آنکلا ورنہ“
”آج کل دسمبر میں پاگل کتا“ نجمہ نے حیرت سے کہا ” کتے تو عموماً گرمیوں پاگل ہوتے ہیں“
” نہیں یہ ضروری نہیں “ کنور سلیم نے جواب دیا”اکثر سردیوں میں بھی بعض کتوں کا دماغ خراب ہو جاتا ہے خیر آپ خوش قسمت تھے ڈاکٹر شوکت پاگل کتوں کا زہر بہت خطرناک ہوتا ہے آپ تو جانتے ہی ہوں گے۔“
”ہاں بھئی ڈاکٹر و ہ آپ کے آدمیوں نے بیمار کے کمرے میں ساری تیاریاں مکمل کرلی ہیں وہ لوگ اس وقت وہیں ہیں “ڈاکٹر توصیف نے کہا۔
” آپ کے انتظار میں شاید ان لوگوں نے بھی ابھی تک کھانا نہیں کھایا “ نجمہ بولی
” میرا انتظار آپنے ناحق کیا۔ میں آپریشن سے قبل تھوڑا سا سوپ پیتا ہوں کھانا کھالینے کے بعد دماغ کسی کام کانہیں رہ جاتا“
” جی ہاں میں نے بھی اکثرکتابوں میں یہی پڑھا ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے کہ دنیا کے بڑے آدمی نے یہ ضرور کہا ہوگا۔“ نجمہ نے شوخی سے کہاڈاکٹر شوکت نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔نجمہ سے نگاہیں ملتے ہی وہ زمین کی طرف دیکھنے لگا۔
” خیر صاحب جو کچھ سہی میں تو دن بھر میں پانچ سیر سے کم نہیں کھاتا۔“کنور سلیم نے ہنس کر کہا” کھانا دیر سے منتظر ہے ہر تندرست آدمی کا فرض ہے کہ اسے انتظار کی زحمت سے بچائے۔“
سب لوگوں کھانے کے کمرے میں چلے گئے۔
پرانی کوٹھی کے پائیں باغ میں پرفیسر عمران کسی سے گفتگو کر رہا تھا۔ کبھی کبھی دونوں کی آوازیں بلند ہوکر خلا میں ڈوب جاتیں ۔
پرفیسر عمران کہہ رہا تھا” لیکن میں نہیں جاﺅں گا۔“
”تو اس میں بگڑنے کی کیا بات ہے۔میری جان“ دوسری آواز سنائی دی ” نہ جانے میں تمہارا ہی نقصان ہے“
” میرا نقصان “ پرفیسر کی آواز آئی” یونان اور روم کے دیوتا کی قسم ہرگز نہ جاﺅں گا۔“
” تمہیں چلنا پڑے گا۔“کسی نے کہا۔
”سنو اے ابابیل کے بچے تم میں اتنی ہمت نہیںکہ مجھے میری مرضی کے خلاف کہیں لے جاسکو۔“پروفیسر چیخا۔
” خیر نہ جاﺅ لیکن تمہیں اس کے لئے پچھتانا پڑے گا دیکھنا ہے کہ تمہیں کل سے سفیدہ کیسے ملتا ہے۔“دوسرے آدمی نے کہا اور باغ سے نکلنے لگا۔
”ٹھہروٹھہرو تو ایسے بات کرو ناتم نے پہلے ہی کیوں نہ بتا دیا کہ تم بیر بہوٹی کے بچے ہو۔‘ پروفیسر ہنس کر بولا۔

”بیر بہوٹی ! ہاں بیر بہوٹی۔ مگر اس کے لئے تمہیں میرے ساتھ مالی کے جھونپڑے تک چلنا ہوگا۔“
” اچھا آﺅ تو پھر چلیں “ پرفیسر عمران نے کہااور وہ دونوں مالی کے جھونپڑے کی طرف چل پڑے
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد پرفیسر لنگڑاتا ہوا مالی کے جھونپڑے سے باہر نکلا وہ اکیلا تھا اور اس کے کاندھے پر ایک وزنی گٹھڑی تھی ایک جگہ رک کر اس نے ادھر ادھر دیکھا، پھر مالی کے جھونپڑے کی طرف گھونسہ تان کر کہنے لگا۔
ابے تو نے مجھے سمجھا کیا ہے میں تجھے کتے کا گوشت کھلادوں گا چھچھوندر کی اولاد نہیں تو مریخ،زحل ،مشتری، عطارد سب کے سب تیری جان کے دشمن ہوجائیں گے اے میں وہ ہوں جس نے سکندر اعظم کا مرغا چرایاتھاچمگاڈر مجھے سلام کرنے آتے ہیں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تو اپنے دادا کا نطفہ ہے چلا ہے وہاںسے مکھیاں مارنے بڑا آیا کہیں کا تیس مار خاں تیس مار خاں کی ایسی کی تیسینہیں جانتا کہ میں بھوتوں کاسردار ہوں آﺅ اے غرفوس اسے کھا جاﺅ آو ¿ اے ارسلا نوس اسے چبا جاﺅچڑیلوں کی حرافہ نانی اشقلونیا تو کہاں ہے دیکھ میں ناچ رہا ہوں میں تیرا بھتےجا ہوں آجا پیاری “
یہ کہہ کر پروفیسر نے وہیں ناچنا شروع کردیا پھر وہ سینے پر ہاتھ مار کر کہنے لگا۔”میں اس آگ کا پجاری ہوں جو مریخ میں جل رہی ہے۔ ہزار سال سے میںاس کی پوجا کرتا ہوا آرہاہوں ۔میں پانچ ہزار سال سے انتظار کر رہا ہوں ۔ لیکن وہ ستارہ کبھی نہ ٹوٹے گا اے کہ میںتیرے لےے خرگوش پالے۔ اے کہ میں تجھے گلہریوں کے کباب کھلاتا ہوں میں تتلیوں کے پروں سے سگریٹ بنا کر تجھے پلاتا ہوںاے پیارے ابلیس تو کہاں ہے ں تجھے اپنا کاٹ کر کھلادوں گا“
وہ اور ناجانے کیا بڑبڑاتا اچھلتا کودتا ہوا پرانی کوٹھی کے باغ میں غائب ہوگیا۔
مریض کے کمرے کا منظر حد درجہ متاثر کن تھا۔ نرس اور ڈاکٹر سب سفید کپڑوں میں ملبوس آہستہ آہستہ ادھر ادھر آجا رہے تھے۔ آپریشن ٹیبل جو سول ہسپتال سے خاص اہتمام کے ساتھ یہاں لائی گئی تھی۔ کمرے کے وسط میں پڑی تھی مریض کو اس پر لٹایا جاچکاتھا۔کمرے میں بہت زیادہ طاقت والے بلب روشن کر دئےے گئے تھے۔ میلائچیوں میں گرم و سرد پانی رکھا ہوا تھا۔ اسی قریب ایک دوسری میز پر عجیب و غریب قسم کے آپریشن کے اوزار اور ربڑ کے دستانے پڑے ہوئے تھے۔
ڈاکٹر شوکت کچھ دیر قبل پیش آئے ہوئے حادثے کو قطعی بھلاچکا تھا۔ اب اس کا دھیان صرف آپریشن کی طرف تھا۔ایک آدمی کی زندگی خطرے میں تھی وہ اسے خطرات سے نکالنے جارہاتھا۔ یہ اس کے امکان میں تھا اس نے اپنی تمام تر کوششیں صرف کر دینے کا تہیہ کر لیاتھا۔ نو جوان ماہر یہ بھی اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ا گرا سے اس کیس میں کامیابی ہو گئی تواس کی شخصیت کہیں کی کہیںجا پہنچے گی۔ کامیابی اسے ترقی کے زینوں پر لے جائے گی اور ناکامی! لیکن نہیں اسکے ذہن میں ناکامی کے خیال کا نام و نشان بھی نہ تھا۔وہ ایک مشاق ماہر فن کی طرح مطمئن نظر آرہا تھا۔ ڈاکٹر توصیف بھی کمرے میں موجود تھا۔ لیکن اس کی حیثیت ایک تماشائی جیسی تھی وہ دیکھ رہا تھا اور متحیر ہو رہا تھا کہ یہ نو جوان لڑکا کس طرح سکون و اطمینان کے ساتھ اپنی تیاری میں مصروف ہے ایسے موقعوں پر اتنا اطمینان تواس نے اچھے اچھے معمر اور تجر بے کار ڈاکٹر وں کے چہروں پر بھی سکون نہیں دیکھا تھا وہ دل ہی دل میں اس کی تعریفیں کر رہا تھا۔
باہر برآمدے میں نواب صاحب کی بہن اور نجمہ بیٹھی تھیں ۔ دونوں پریشان نظر آرہی تھیں کنور سلیم ٹہل ٹہل کر سگریٹ پی رہا تھا۔
” ممی کیاوہ کامیاب ہوجائے گا۔“ نجمہ نے بے تابی سے کہا” مجھے یقین ہے کہ وہ ضرور کامیاب ہوجائے گا لیکن کتنی دیر لگے گی؟
” پریشان مت ہو بیٹی۔“ بیگم صاحبہ بولیں ” میرا خیال کہ کافی عرصہ لگے گا ممکن ہے صبح ہوجائے لہٰذا ہم لوگوں کا یہاں اس طرح بیٹھنا ٹھیک نہیں ۔کیوں نہ ہم لوگ ڈ رائینگ روم میں چل کر بیٹھیں غالباً کافی اب تیار ہو گئی ہو گی۔ سلیم کیا تم کافی نہ پیو گے۔

” کافی کا کسے ہوش ہے پھو پھی صاحبہ“ سلیم نے سگریٹ کو برآمدے میں بچھے ہوئے قالین پر گرا کر پیر سے رگڑتے ہوئے کہا۔” میں نجمہ سے زیادہ پریشان ہوں ۔ مجھے تعجب ہے کہ آپ ایسے وقت بھی کافی نہیں بھولیں ۔“
” تم ساری قالینوں کا ستیا ناس کروگے“بیگم صاحبہ نے ناک بھوں سکوڑ کر کہا۔” کیا سگریٹ کو دوسری طرف نہیں پھینک سکتے۔“
” جہنم میںگئی قالین“ وہ ناخوشگوار لہجے میں بولا۔” میرا دماغ اس وقت ٹھیک نہیں ۔“
” عورت نہ بنو“ بیگم صاحبہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔” ابھی کتنی دیر کی بات ہے کہ تم میری مخالفت کے باوجود بھی آپریشن کی حمایت کر رہے تھے۔ اپنی حالت کو سنبھالو ۔تمہیں تو ہم لوگو ں کو دلاسا دینا چاہیے۔“
” میں کوشش کرتا ہوں کہ خود کو سنبھا لوں لیکن یہ ممکن نہیں اسے کرنل تیواری کے الفاظ یاد آرہے ہیں۔ جس نے کہا تھا کہ بچنے کی امید نہیں آخر یہ احمق لڑکا کس امید پر آپریشن کر رہاہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ وہ خطرے کو جلد سے جلد قریب لانے کی کوشش کر رہا ہے۔“
” نہیں کنور صاحب “ ڈاکٹر توصیف نے بیمار کے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا مجھے یقین ہو تا جا رہا ہے کہ وہ جلد سے جلد نواب صاحب کو خطرات سے دور کریگا۔“
” میں آپکا مطلب نہیں سمجھا“ سلیم اس کی طرف گھوم کر بولا ” کیا آپریشن شروع ہو گیا۔“
” نہیں ابھی وہ لوگ تیاری کر رہے ہیںاور میرا وہاں کوئی بھی کام نہیں میں اس لئے یہاں چلا آیا کہ میں یہاں زیادہ کارآمد ہوسکوںگا۔“ڈاکٹر توصیف نے مسکراتے ہوئے کہا
” آپ بہت اچھے ہیں ڈاکٹر ممی تو کافی ضبط و تحمل والی ہیں ۔ لیکن شاید مجھے اور سلیم کو جلد از جلد طبی امداد کی ضرورت پیش آئے گی مجھے یہ سن کرخوشی ہوئی کہ آپ اس نو جوان ڈاکٹر کی کامیابی پر اس قدر یقین رکھتے ہیں وہ کس قدر سنجیدہ اور مطمئن ہے۔“
اور ساتھ ہی ساتھ کافی خوبصورت بھی ۔“ سلیم نے کسی قدر تلخی سے کہا
” تم کیا بک رہے ہو سلیم“ بیگم صاحبہ تیزی سے بولیں اور نجمہ نے شرما کر سر جھکالیا۔
” معاف کیجئے گا پھو پھی صاحبہ میں بہت پریشان ہوں“ سلیم یہ کہہ کر ٹہلتا ہوا برآمدے کے دوسرے کنارے تک چلا گیا۔
” کنور صاحب میرے خیال سے بجلی کا انتظام بالکل ٹھیک ہوگا شاید ڈائنامو کی دیکھ بھال آ پ ہی کرتے ہیں“ ڈاکٹر توصیف نے کہا۔
” جی ہاں کیوں ڈائنامو بالکل ٹھیک چل رہا ہے لیکن اس کے پوچھنے کا مطلب“ سلیم نے ڈاکٹر کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
” مطلب صاف ہے“ ڈاکٹر توصیف نے کہا۔ اگر خدا نخواستہ ڈائنامو فیل ہوگیا تو اندھیرے میں آپریشن کس طرح ہوگا ایک بڑے آپریشن کے لئے کافی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔“
” بظاہر تو ڈائنامو فیل ہونے کا کوئی امکان نہےں لیکن اگر فیل ہو ہی گیا تو میں کیا کر سکوں گا اف یہ ایک خطرناک خیال ہے اگر واقعی ایسا ہوگیا تو ڈاکٹر شوکت بڑی مصیبت میں پڑ جائےگا اوہ نہیں نہیں میرے خدا ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا“ کنور سلیم کے چہرے پربے چینی کے آثار پیدا ہوگئے۔
اتنے میں ایک نو کر داخل ہوا
”کیوں کیا ہے“ سلیم نے اس سے پوچھا۔
” پروفیسر صاحب نیچے کھڑے ہیں آپ کو بلا رہے ہیں۔“ نو کر نے کہا“

” پروفیسر مجھے اس وقت“ سلیم نے حیرت سے کہا۔
” جاﺅ بھئی نیچے جاﺅ“ بیگم صاحبہ بیزاری سے بولیں ۔“کہیں وہ پاگل یہاں نہ چلا آئے۔“
”مجھے حیرت ہے کہ وہ اس وقت یہاں کس لئے آیا ہے۔“سلیم نے نوکر سے کہا۔” کیا تم نے اسے آپریشن کے متعلق نہیں بتا یا ؟“
” حضور میںنے انہیں ہر طرح سمجھایا۔ لیکن وہ سنتے ہی نہیں ۔“
” خیرچلو دیکھوں کیا بکتا ہے۔“ سلیم نے کہا”اس پاگل سے تومیں تنگ آگیا ہوں“
سلیم نیچے آیا۔ پروفیسر باہر کھڑا تھا اس نے سردی سے بچنے کےلئے اپنے سر پر مفلر لپیٹ رکھا تھا۔ اورچسڑ کے کالراس کے کانو ں کے اوپر تک چڑھا تھا۔ ان سب باتوں کے باوجود وہ سردی سے سکڑا جا رہا تھا۔
”کیوں پروفیسر کیا بات ہے؟“ سلیم نے اس کے قریب پہنچ کر پوچھا۔
” ایک غیر معمولی چمکدار ستارہ جنوب کی طرف نکلا ہے۔ “ پروفیسر نے اشتیاق آمیز لہجے میں کہا”اگر اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہتے ہو تومیرے ساتھ چلو۔“
” جہنم میں گئی معلومات “سلیم نے جھنجلا کر کہا۔” کیا اتنی سی بات کےلئے تم دوڑے آئے ہو۔“
” بات توکچھ دوسری ہے میں تمہیں بہت تعجب خیز چیز دیکھاناچاہتا ہوںا یسی چیز تم نے کبھی نہ دیکھی ہوگی“اس نے سلیم کا بازو پکڑ کر اسے پرانی کوٹھی کی طرف لے جاتے ہوئے کہا۔
سلیم چلنے لگا لیکن اس نے لو ہے کی موٹی سلاخ کو نہ دیکھا جو پروفیسر اپنی آستین میں چھپا ئے ہوئے تھا۔
” کھٹ“ تھوڑی دور چلنے کے بعد پروفیسر نے وہ سلاخ سلیم کے سر پردے ماری۔ سلیم بغےرآواز نکالے چکرا کر دھم سے زمین پر آرہاپروفیسر حیرت انگیز پھرتی کے ساتھ جھکا اور بے ہوش سلیم کو اٹھاکر اپنے کاندھے پر ڈال لیا بالکل اسی طرح جیسے کوئی ہلکے پھلکے بچے کو اٹھالیتا ہےوہ تیزی سے پرانی کو ٹھی کی طرف جا رہاتھا۔ یہ سب اتنی جلدی اور خاموشی سے ہوا وہ نوکر جو ہال میں سلیم کا انتظار کر رہا تھا وہ یہی سوچتا رہ گیا کہ اب سلیم پروفیسر کو کوٹھی میں دھکیل کر واپس آرہا ہوگا۔
پرانی کوٹھی میں پہنچ کر پروفیسر نے بے ہوش سلیم کو ایک کرسی پرڈال دیا اور جھک کر سرکے اس حصے کودیکھنے لگا جو چوٹ کی وجہ سے پھول گیا تھااس نے پر اطمینان انداز میں اس طرح سر ہلایا جیسے اسے یقین ہو کہ وہ ابھی کافی دیر تک بے ہوش رہے گا پھر اس حیرت انگیز بوڑھے نے سلیم کو پیٹھ پر لا د کر مینار پر چڑھنا شروع کیا بالائی کمرے اندھیرا تھا۔ اس نے ٹٹول کر سلیم کو ایک بڑے صوفے پر ڈال کر اور موم بتی جلا کر طاق پر رکھ دی۔
ہلکی روشنی میں چسٹر کے کالر کے سائے کی وجہ سے اس کا چہرہ اور زیادہ خوفناک معلوم ہو نے لگا تھا۔ اسنے سلیم کوصوفے سے باندھ دیا پھر وہ دوربین کے قریب والی کرسی پر بیٹھ گیا اور دوربین کے ذریعے نواب صاحب کے کمرے کا جائزہ لینے لگا نواب صاحب کے کمرے کی کھڑکیا ں کھلی ہوئی تھیں ڈاکٹر اور نرسوں نے اپنے چہروں پرسفید نقاب لگا لئے تھے۔
ڈاکٹر شوکت کھولتے ہوئے پانی سے ربڑ کے دستانے نکال کر پہن رہا تھا۔ وہ سب آپریشن کی میز کے گرد کھڑے تھے۔ آپریشن شروع ہونے والاتھا۔
” بہت خوب “ پروفیسر بڑبڑایا ” ٹھیک وقت پر پہنچ گیا لیکن آخر اس سردی کے باوجود انھوں نے کھڑکیاں کیوں نہیں بند کیں۔“
نواب صاحب کی کوٹھی کے گردوپیش عجیب طرح کی پراسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ چھوٹے سے لیکر بڑے تک کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بیمار کے کمرے میں کیا ہو رہا ہے۔ بیگم صاحبہ کا سخت حکم تھا کہ کسی قسم کا شور نہ ہونے پائے لوگ اتنی خامشی سے چل رہے تھے جیسے وہ خواب میں چل رہے ہیں

کو ٹھی میں نو کرانیاں پنجوں کے بل چل رہی تھیں گھر سے سارے کتے باغ کے آخری کنارے پر ایک خالی جھونپڑے میں بند کردئےے گئے تھے۔ تاکہ وہ کوٹھی کے قریب شور نہ مچا سکیں۔
پروفیسر دوربین پر جھکا ہوا اپنے گردو پیش سے بے خبر بیمار کے کمرے کا منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ تنا محو تھا کہ اس نے سلیم کے جسم کی حرکت کوبھی نہ محسوس کیا۔ سلیم آہستہ آہستہ ہوش میں آرہا تھا ایک عجیب قسم کی سنسناہٹ اس کے جسم میںپھیلی ہوئی تھی اس نے اپنے بازﺅں پررسی کے تناﺅ کو بھی نہ محسوس کیا دو تین با ر سر جھٹکنے کے بعد اس نے آنکھیں کھو ل دیں اسے چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی پھیلی نظر آرہی تھی۔ پھر دور ایک ٹمٹماتا ہو ا تارہ دکھائی دےا تارے کے چاروں طرف ہلکی ہلکی روشنی تھی آہستہ آہستہ روشنی پھیلتی گئیموم بتی کی لو تھرا رہی تھیپروفیسر دوربین پر جھکا ہو اتھا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر یہ کیا وہ بندھا ہو اکیوں ہےرفتہ رفتہ کچھ دیر قبل کے واقعات اسے یاد آگئے۔
” پروفیسر ! آخر یہ کیا حرکت ہے“ اس نے بھرائی ہوئی نحیف آواز میں قہقہہ لگاکر کہا” آخر اس مذا ق کی کیا ضرورت تھی۔“
” اچھا تم جاگ گئے“ پروفیسر نے سر اٹھاکر کہا” کوئی گھبرانے والی بات نہیں تم اس وقت اتنے ہی بے بس ہو جتنے میرے دوسرے شکار تمہیں یہ سن کر خوشی ہوگی کہ میں اب گلہریوں ، خرگوشوں اور مینڈکوں کے ساتھ ہی ساتھ آدمیوں کابھی شکار کرنے لگا ہوں کیوں ہے نہ ”دلچسپ خبر“ پہلے تو سلیم کچھ نہ سمجھ سکا۔ لیکن دوسرے لمحے اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے جسم کا سارا خون منجمد ہو گیا ہو۔ وہ لرز گیا وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ بوڑھے نے اپنے دوسرے شکاروںکا حوالہ کیوں دیا ہے تو کیا تو کیا اب وہ اپنی خونی پیاس بجھانے کے لئے جانوروں کے بجائے آدمیوں کا شکار کرے گا۔
سلیم نے شدید گھبراہٹ کے باوجود بھی لاپروائی کا انداز پیدا کر کے قہقہہ لگانے کی کوشش کی۔
”بہت اچھے پروفیسر لیکن مذاق کا وقت اور موقع ہوتا ہے چلو شاباش یہ رسیاںکھول دو میں وعدہ کرتا ہوں “
”صبر۔ صبر میرے اچھے لڑکے“ اسنے اس کی طرف جھک کر مسکراتے ہوئے کہا” اب میری باری آئی ہا ہا ہا“
”تمہاری باری کیا مطلب “ سلیم نے چونک کر کہا۔
” کیا تم نہیں جانتے“ پروفیسر نے برا سا منہ بنا کر کہا
”کہو کہو میں کچھ نہیں سمجھ سکا۔“ سلیم نے بے پروائی سے کہا۔
” میرا مقصد یہ تھاکہ نو جوان ڈاکٹر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے“
پروفیسر نے پرسکون لہجے میں کہا” اور اسے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم دوبارہ آزاد کردئے گئے توایسا نہ سکے گا۔ کیونکہ مجھے خوف ہے بہر حال میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ سکون و اطمینان کے ساتھ نواب صاحب کی جان بچا سکے اسی لئے میں تمہیں یہاں لایا ہوں ۔ میرے بھولے سلیم کیا سمجھے؟ میں کیامیں چالاک نہیں۔“
”بہت چالاک ہو کیاکہنے“ سلیم نے ہنس کر کہا۔
” تم یہاں بالکل بے بس ہو یہاں میں تمہاری خبر گیر ی بھی کروں گا۔اور بیمار کے کمرے کا منظربھی دیکھ سکوں گا۔“ پروفیسر دوربین کے شیشے میں آنکھ لگاتے ہوئے کہا۔” نہ تو میں احمق ہوں اور نہ میری دوربین محض مذاق ہے کیا سمجھے۔“
اچانک سلیم میں ایک حیرت انگیز تبدیلی پیدا ہو گئی اس کی بھویں تن گئیں کچھ دیر قبل جو ہونٹ مسکرا رہے تھے بھنچ کررہ گئے آنکھوں کی شرارت آمیز شوخی ایک بہت ہی خوفناک قسم کی چمک میں تبدیل ہوگئی وہ اب تک ہنس مکھ اور کھلنڈرا نوجوان رہاتھاا

ا یسامعلوم ہوا جیسے اس کے چہرے پر سے ایک گہری نقاب ہٹ گئی ہو۔و ہ ایک خونخوار بھےڑئےے کی طرح ہانپ رہاتھا۔
”ان رسیوںکو کھول دو سور کے بچے“ وہ چیخ کر بولا۔” ورنہ میں تمہارا سر پھوڑدوں گا۔“
” دھیرج دھیرج میرے پیارے بچے “ پروفیسر نے مڑ کر پر سکون لہجہ میں کہا۔ کل تک میں یقینا تم سے خائف تھا۔ مجھے اس کا اعتراف ہے۔لیکن تم اس وقت میری گرفت میں ہو قاتل سازشی تم بہت خطرناک ہوتے جا رہے ہو۔“
”تم دیوانے ہو قطعی دیوانے“ سلیم نے تیزی سے کہا۔
” شایدا یسا ہی ہو“ پروفیسر نے لاپروائی سے کہا” لیکن میں اتنا دیوانہ بھی نہیں کہ تمہاری سازشوں کو نہ سمجھ سکوں تم اب تک مجھے ایک بے جان مگر کارآمد اوزار کی طرح استعمال کرتے آئے ہو۔لیکن آج کی رات میری کیا سمجھے۔“
سلیم کے جسم سے پسینہ پھوٹ پڑا ۔ غصے کی جگہ خوف نے لے لی۔ و ہ اب تک پروفیسر کو پاگل سمجھتا تھا کہ وہ جدھر اسے لے جاناچا ہتا ہے وہ بغیر سمجھے بوجھے چلا جاتاہے لیکن پھر بھی وہ ہمیشہ محتاط رہا اس نے آج تک اپنی اصلی سرگرمیوں کی بھنک بھی پر فیسر کے کان میں نہ پڑنے دی تھی پھر اسے اس کی سر گرمیوں کا علم کیونکر ہوا وہ خوفز دہ ضرور تھا لیکن ناامید نہیں کیونکہ اس کی زندگی کے دوسرے پہلو کا علم پروفیسر کے علاوہ کسی اور کو نہ تھا پروفیسر جو پاگل تھا۔
”تم قتل کی بات کرتے ہو“ سلیم نے سکون کے ساتھ کہا’ ’ خدا کی قسم اگر تم نے یہ رسی فوراً ہی نہ کھول دی تو میں اپنی اس دھمکی کو پورا کر دکھاﺅں گا۔ جو اکثر تمہیں دیتا رہتا ہوں میں پولیس کو اطلاع دے دوں گا کہ تم قاتل ہو اپنے اسسٹنٹ کے قاتل“
” میں“ پروفیسر نے شرارت آمیز لہجے میں کہا۔” یہ میں آج ایک نئی اور دلچسپ خبر سن رہا ہوں ۔“ میں نے یہ قتل کب کیا تھا۔“
” کب کیا تھا“ سلیم نے کہا۔” اتنی جلدی بھول گئے ۔ کیا تم نے اپنے اسسٹنٹ نعیم کو اپنے بنائے ہوئے غبارے میں بٹھا کر نہیں اڑایا تھا جس کا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔“
پروفیسر خاموش ہو گیا اس کے چہرے پر عجیب قسم کی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی” اور ہاں اس حادثے کے بعد سے میرا دماغ خراب ہو گیا اور تمہیں اس واقعہ کا علم ہو گیا تھا۔ لہٰذا تم نے مجھے بلیک میل کرنا شروع کردیامجھ سے نا جائز کاموں میں مدد لیتے رہے مجھ سے روپیہ اینٹھتے رہے لیکن برخودار شاید تمہیں اس بات کا علم نہیں کہ میں حال ہی میںاےک سر کاری جاسوس سے مل چکا ہوںتم خوفزدہ کیوں ہو رہے ہو۔ میں نے تمہارے متعلق اس سے کچھ نہیں کہا میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نعیم میرے غبارے کے ٹوٹنے سے مرا نہیں بلکہ و ہ اس وقت بھی مدراس کے کسی گھٹیا سے شراب خانے میںنشے سے چور اوندھا پڑا ہوگا اور مجھے اس بات کا علم بھی ہے کے اس نے جو خطوط مجھے لکھے تھے تم نے راستے ہی سے غائب کردےئے بہت عرصہ ہوا تمہیں اس کے زندہ ہونے کا ثبوت مل گیا تھا۔ لیکن تم مجھے پاگل سمجھ کر روپے اینٹھنے کے لئے اندھیرے ہی میں رکھنا چاہتے تھےکہو سلیم میاں کیسی رہی کیا اب میں تمہیں وہ باتیں بھی بتاﺅ جو میں تمہارے متعلق بھی جانتاہوں ۔ © ©“
کنور سلیم سہم کر رہ گیا تھا اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے پروفیسر کا پاگل پن کسی نئے موڑ پر پہنچ گیا ہے جسے وہ اب تک ایک بے ضرر کیچوے سمجھتا رہا وہ آج پھن اٹھائے اس پر جھپٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
” خیر پروفیسر چھوڑو ان حماقت کی باتو ں کو “سلیم نے کوشش کرکے ہنستے ہوئے کہا” میری رسیاں کھول دوآدمی بنو تم میرے عزیز ترین دوست ہومیں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں اس سے بھی بڑی دوربین خرید دوں گا اتنی بڑی کہ سچ مچ ایک شیشے کا گنبد معلوم ہوگی۔“
” ٹھہرو سلیم ٹھہرو“پروفیسر نے دوربین کے شیشے پر جھک کر کہا” میں ذرا بیمار کے کمرے میں دیکھ لوں ہوں تو ابھی آپریشن شروع نہیں ہوا ۔

ایسے خطرناک آپریشنوں میں کافی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے نو جوان ڈاکٹر نواب صاحب کی جان بچانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ لیکن سلیم یہ تو بڑی بری بات ہے اگر نواب صاحب دس بیس برس اور زندہ رہے تو کیا ہو گاتمہاری وراثت تم تک جلد نہ پہنچے سکے گی۔“
” اس سے کیا ہو تا ہے“ سلیم نے کہا”میں بہرحال ان کا وارث ہوں اور پھر مجھے اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیا میں کم دولت مند ہوں۔“
خیر خیر تمہاری دولت کاحال تو میں اچھی طرح جانتا ہوں اسی لئے تم ایک بے بس بوڑھے سے روپے اینٹھتے رہےسنو بیٹے میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہاری تنگدستی اب نواب صاحب کی موت کی خواہاں ہے اسی لئے میں نے تمہیں تکلیف دی ہے مجھے امید ہے کہ تم ایک سعادت مند بچے کی طرح اس کا کچھ خیال نہ کروگے کیا تم نے آج ڈاکٹر توصیف کو اسی لئے شہر نہیں بھیج دیا کہ نو جوان ڈاکٹر سچ مچ پیدل آنے پر مجبور ہو جائے۔“
” کیا فضول بکواس ہے!“ سلیم نے دوسری طرف منہ پھیرتے ہوئے کہا۔
” اور پھر تم ایک رسی لے کر درخت پر چڑھ گئے۔“ پرفیسر بولتا رہا” کیا تم سمجھتے ہو کہ میں کچھ نہیں جانتا میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ڈاکٹر شوکت بچ کیسے گئے لیکن میں تمہیں نہیں بتاﺅں گاتم مجھے اندھیرے کی چمگادڑ سمجھتے ہو اور تمہارا خیال یہ بھی درست ہے ۔اندھیرا مجھ پر سورج کی طرح روشن رہتا ہے میں اس سے بھی زیادہ جانتا ہوں کیا میں نہیں جانتا۔“
” تم کچھ نہیں جانتے“ سلیم نے مردہ آواز میں کہا” یہ محض تمہارا قیاس ہے۔“
” تم اسے قیاس کہہ رہے ہو۔لیکن یہ سو فیصد سچ ہے دیکھو سلیم ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں کیا میں یہ نہیں جانتا کہ ڈاکٹر شوکت کو قتل کردینے کی ایک وجہ اوربھی ہے جس کا تعلق آپریشن نہیں ۔“
ٍ” کیا“سلیم بے اختیار چونک کر چیخا۔
” ٹھیک ٹھیک “ پرفیسر نے سر ہلایا”تمہاری چیخ ہی اقبال جرم ہے۔“
” کیا تم نے اس خنجر باز نیپالی کو روپیہ دے کر اس کے قتل پر آمادہ نہیں کیا تھا اس احمق نے دھوکے میں ایک بے گناہ عورت کو قتل کر دیا۔“
”یہ جھوٹ ہے۔“ ” یہ جھوٹ ہے۔“ سلیم بے صبری سے بولا” لیکن تمہیں یہ سب کیسے معلوم محض قیاس ہے بالکل قیاس ۔“
” مجھے یہ سب کیسے معلوم ہے کہ اس دن تم نے ایک رپورٹر پر گولی چلائی تھی اور وہ رائفل میرے ہاتھ میں دے کر خود بھاگ گئے تھےمحض اس لئے کہ مجھے پاگل تصور کرتے ہوئے اس واقعہ کو محض اتفاقیہ سمجھا جائے اور کہو تو یہ بھی بتا دوں گا کہ تم اس رپورٹر کو کیوں مارنا چاہتے تھے تم اسے پہچان گئے تھے تمہیں یقین ہو گیا تھا کہ اسے تمہاری حرکتوں کاعلم ہو گیا ہے اس وقت تو وہ بچ گیا تھا لیکن آخر کار اسے تمہاری گولیوں سے ہلاک ہونا پڑا کیوں ہے نہ سچ۔“
” نہ جانے تم کس کی باتیں کرہے ہو۔“ سلیم نے سنبھل کر کہا۔
” انس پک ٹر فریدی کی۔“پروفیسر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے رُک رُک کر کہا۔
سلیم کے ہاتھ پیر ڈھیلے ہوگئے وہ یک لخت سُست پڑ گیا۔
تمہاری دھمکیاں اب میرا کچھ نہیں بگا ڑ سکتیں میں اب تمہارے گال پر اس طرح چانٹا مار سکتا ہو۔“پرفیسر نے اٹھ کر اس کے گال پرہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا۔” کیوں نہ میں ان سب باتوں کی اطلاع نجمہ اور اس کی ماں کودے دوں پولیس کو تو میں اسی وقت مطلع کردوں گا۔

لیکن تم یہ سوچتے ہوگے کہ پولیس میری باتوں کا اعتبار نہ کرے گی۔ کیو نکہ میں پاگل ہوں۔“
”نہیں ، نہیں پروفیسر تم جیت گئے تم مجھ سے زیادہ چالاک ہو۔ “ سلیم نے آخری پانسہ پھینکا” اس رسی کو کاٹ دو میں تمہارے لئے ایک شاندار آبزرویٹری بنوادوں گا۔“
” تمہارا ذہن کسی وقت بھی چالبازیوں سے باز نہیں آتا اچھا میں تم سے صلح کر لوں گا مگر اس شرط پرکہ تم اس مینار میں کسی راز کو راز نہ رکھو گے اس کے بعد یقین رکھو کہ تمہارے سب راز مرتے دم تک میرے سینے میں دفن رہیں گے میں اسی لئے تم سے یہ سب اگلوا رہا ہوں کہ تم نے مجھے بھی بہت دنوں بلیک میل کیا ہے اچھا پہلے یہ بتاﺅ کہ واقعی تم نے اس نیپالی سے ڈاکٹر شوکت کو قتل کرانے کی سازش کی تھی۔“
”میرے خیال ہے کہ تم اتنا ہی جانتا ہو جتنا میں ہاں میں نے اس کے لئے اس کو روپیہ دیا تھا۔“
” پھر تم نے اسے قتل بھی کر دیا اس لئے کہ کہیں وہ نام نہ بتا دے۔“
” ہاں لیکن ٹھہرو“
” انسپکٹر فریدی پر قتل کی نیت سے تم نے ہی گولیاں چلائی تھیں ۔“
” ہاں لیکن تم تو اس طرح سوال کر رہے ہو جیسے جیسے“
” تم نے ڈاکٹر شوکت کے گلے میں رسی کا پھندا بھی ڈالا تھا۔“ پرفیسر نے ہاتھ اٹھاکر اسے بولنے سے روک دیا۔
” پھر تمہارا دماغ خراب ہوچلا۔“سلیم نے کہا” ہاں میںنے پھندا ڈالا تھا“ لیکن پھر اس نے کہا”تم نے ابھی کہا ہے کے ہم دونوں ایک دوسرے کواچھی طرح جانتے ہیں اس رسی کو کاٹ دو میں تم سے قطعی خوفزدہ نہیںہوں اس لئے کہ ہم دونوں اب دوست ہیں۔“
” تمہارے ہوائی قلعے بہت زیادہ مضبوط نہیں معلوم ہوتے “ پروفیسر نے کہا ۔ لیکن اس بار اس کی آواز بدلی ہوئی تھی سلیم چونک پڑا سکڑا سکڑایا پروفیسر تن کر کھڑا ہو گیا اس نے اپنے سر پر بندھا ہوا مفلر کھول دیا ۔ چسٹر کے کالر نیچے گرادئے اورموم بتی طاق پر سے اٹھا کر اپنے چہرے کے قریب لاکر بولا۔
” لو بیٹا دیکھ لو میں ہوں تمہارا باپ انسپکٹر فریدی ۔“
” ارے “ سلیم کے منہ سے بے اختیار نکلا اور اسے اپنا سر گھومتا ہو ا محسوس ہونے لگا لیکن فورا ہی سنبھل گیا اس کے چہرے کے اتار چڑھاﺅ سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔
” تم کون ہو میں تمہیں نہیں جانتا اور اس حرکت کا مطلب۔“ سلیم نے گرج کر کہا
”شور نہیں،شور نہیں“ فریدی نے ہاتھ اٹھا کہ کہا۔” تم سے زیادہ مجھے کون پہچان سکتا ہے۔جب کہ تم میرے جنازے میں شریک تھے۔ اس کی تو میں تعریف کروں گا سلیم!تم بہت محتاط ہو اگر میں اپنے مکان سے ایک عدد جنازہ نکلوانے کا انتظام نہیں کرتا توتمہیں میری موت کا ہر گز یقین نہیں ہوتااخباروں میں میری موت کی خبر سن کر شاید تم رات ہی کو شہر آگئے تھے۔ میرے لئے ہسپتال سے ایک مردہ حاصل کرلینا کوئی مشکل کام نہ تھا ہسپتال سے سے جب لاش میرے گھر پر لائی گئی تھی تم اس وقت بھی وہاں موجود تھے اور شاید تم نے دوسرے دن قبرستان تک میری لاش کا پیچھا کیا میں تسلیم کرتا ہوں کہ تم اک اچھے سازشی ضرور ہو۔ لیکن اچھے جاسوس نہیں ۔ تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ پانچ گولیاں کھانے کے بعد با ہوش و حواس پندرہ میل کی مسافت طے کرنا۔ اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اس رات تم نے سارجنٹ حمید کے گھر کے بھی چکر کاٹے تھے۔ لیکن شاید اس وقت تم وہاں موجود نہ تھے۔ جب وہ نیپالی کے بھیس میں راج روپ نگر اس لئے آیا تھا کہ ڈاکٹر توصیف کو اس بات کی اطلاع پولیس کو کرنے سے روک دے کہ میں اس سے مل چکا ہوں اور راج روپ نگر سے واپسی پر یہ حادثہ پیش آیا میں نے ایک بار رپورٹر کے بھیس میں مل کر سخت غلطی کی تھی ۔ اس لئے کہ تم مجھے پہچانتے تھے اور کیوں نہ پہچانتے جب کے میرا کئی بار پیچھا کر چکے تھے اس رات بھی تم نے میرا پیچھا کیا تھا۔

جب میں ” نیپالی کے قتل “ کے بعد گھر آرہا تھا پھر تم نے کبڑے کے بھیس میں سارجنٹ حمید کو غلط راہ پر نکالنے کی کوشش کی ہاں میں کہہ رہا تھا کہ تمہیں شبہ ہو گیا کہ میں تمہیں مشتبہ سمجھتا ہوں لہٰذا واپسی پر تم نے مجھ پر گولی چلائی اور رائفل پروفیسر کے ہاتھ میں دے کر فرار ہوگئے ۔ پروفیسر سے گفتگو کرتے وقت میں نے اچھی طرح اندازہ لگا لیا تھا کہ گولی چلانا تو در کنار وہ اس رائفل کے استعمال تک سے ناواقف تھے تم نے مجھے قصبے کی طرف مڑتے دیکھا اس موقع کو غنیمت جان کر تم وہاں سے دومیل کے فاصلے پر جھاڑیوں میں جا چھپے اور تم اسی تانگے پرگئے تھے جو سڑک پر کھڑا تھاتم نے خود ہی مدد کےلئے چیخ کرمجھے اپنی طرف متوجہ کیا پھر تم نے گولیاں چلانی شروع کر دیں اسی وقت میرے ذہن میں یہ نئی تدبیر آئی جس کے نتیجے میں آج تم ایک چوہے دان میں پھنسے ہوئے چوہے کی طرح بے بس نظر آرہے ہو“
انسپکٹر فریدی اتنا کہہ کر سگریٹ سلگانے کے لئے رک گیا۔
” نہ جانے تم کون ہو اور کیا بک رہے ہو“سلیم نے جھنجلا کر کہا” خیریت اسی میں ہے کے مجھے کھول دو۔ ورنہ اچھا نہ ہوگا“
”ابھی تک تو اچھا ہی ہورہا ہے۔“فریدی نے شانے ہلاکر کہااور جھک کر دوربین میں دیکھنے لگا۔
” تو تم نہیں کھولو گے مجھےدیکھو میں کہے دیتا ہوں“
” بس بس زیادہ شور مچانے کی ضرورت نہیںمجھے ڈاکٹر شوکت کا کارنامہ دیکھنے دو“
”دیکھومسڑ“ سلیم تیزی سے بولا” اول تو مجھے یقین نہیں کہ تم سرکاری جاسوس ہو اور اگر ہو بھی تو مجھے اس سے کیا سروکارآخر تم نے مجھے کس قانون کے تحت یہاں باندھ رکھا ہے۔“
” اس لئے کی تم ایک اقبالی مجرم ہو ابھی ابھی تم نے اپنے جرموں کا اعتراف کیا ہے کیا یہ تمہارے باند ھ رکھنے کے لئے کافی نہیں ۔“
” کیا احمقوں کی سی باتیں کرتے ہو“ سلیم نے قہقہہ لگا کر کہا” کیا تم اسے سچ سمجھتے ہو۔“
” جھوٹ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ۔“فریدی نے دوربین پر جھکتے ہوئے کہا۔
” ہوش کے ناخن لو مسٹر سراغرساں۔“ سلیم نے بولا” کچھ دیر قبل میں ایک پاگل آدمی سے گفتگو کر رہاتھااگر میں اس کی ہاں میں ہاں نہ ملاتا تو وہ میرے ساتھ نہ جانے کیا برتاﺅ کرتا میں اسکی ظالمانہ رحجانات سے اچھی طرح واقف ہوں لہٰذا جان بچانے کیلئے اسکے علاوہ ا ور چارہ ہی کیا تھا واہ میرے بھولے سراغرساں واہ“
فریدی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ سلیم کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
”خیر جو ہوا سو ہوامجھے فوراً کھول دو انسان سے غلطی ہوتی ہے میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے افسروں سے تمہاری شکایات نہ کروں گا“
فریدی اسے بے بسی سے دیکھ رہا تھااور سلیم کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
” خیر خیر کوئی بات نہیں “ فریدی نے سنبھل کر بولا” لیکن آج تم نے ڈاکٹرشوکت کو قتل کرنے کی جو کوشش کی ہیں وہ خود میں نے دیکھی ہیں ڈاکٹرشوکت کی کار میں نے ہی بگاڑی تھیمیں یہ پہلے سے جانتا تھا کہ اس وقت کوٹھی میں کوئی کار موجود نہیں تھی میں دراصل اسے پیدل لے جانا چاہتا تھا۔ محض یہ دیکھنے کےلئے کہ حقیقتا سازشی کون ہے۔کیا تم نے اس سے کار کابہانہ کرکے وہاں سے نہیں ٹل گئے تھےکیا تم نے پروفیسر کوزہریلی سوئی دے کر شوکت کے ہاتھ میں چبھو دینے پر آمادہ نہیں کیا تھاجب تم نے اس کے گلے میں پھنداڈالا تھا۔

تب بھی میں تم سے تھوڑی دور کے فاصلے پر موجود تھا اور میں نے ہی شوکت کو بچایا تھا۔“
” نہ جانے تم کونسی داستانِ امیر حمزہ بیان کر رہے ہو۔“سلیم نے اکتا کر کہا۔عقل مندآدمی ذرا سوچو توآخر میں ڈاکٹر شوکت کی جان کیوں لیناچاہوں گا۔جب کہ وہ میرے لئے قطعی اجنبی ہے تم کہو گے کہ میں نے ایسا محض صرف اس لئے کیا ہے کے چچا جان جانبر نہیں ہوسکیں لیکن ایسا سوچناحماقت ہوگی اگر ایسا ہو تا تو میں پہلے ہی ان کا خاتمہ کر دیتا اور کسی کو خبر تک نہ ہوتی“
” کیا کہا شوکت تمہارے لئے اجنبی ہے۔“ فریدی نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔” تم اس کے لئے اجنبی ہو سکتے ہو لیکن وہ تمہارے لئے نہیں۔کیا بتاﺅں کہ تم اس کی جان کیوں لیناچاہتے ہو۔“
فریدی کے الفاظ کا اثر حیرت انگیز تھا۔ سلیم پھرسست پڑ گیااس کی آنکھوں سے خوف کا اظہار ہو رہاتھا۔اس کے ذہن میں خوف اور دلیری باہمی کش مکش میں مبتلا تھےآخر کار اس نے خوف پرقابوپالیا۔
” آخر تم کیاچاہتے ہو؟ اس نے فریدی سے کہا۔
” تم کو قانون کے حوالے کرنا۔“
”لیکن کس قانون کی رو سے۔“
” تم نے ابھی ابھی اپنے جرموں کا اعتراف کیا ہے۔“
” اچھا چلو یہی سہی“ وہ فریدی کی گھبراہٹ سے لطف اندوز ہوتا ہوا بولا۔ ” لیکن تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ میں نے اقبال جرم کیا ہے عدالت میں تم گواہ کی حیثیت سے کسے پیش کروگے جب کے یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی تیسرا نہیں دیکھو مسٹر فریدی مجھے جھانسا دینا آسان کام نہیں ۔ تم اس طرح عدالت میں میرے خلاف مقدمہ چلا کر کامیاب نہیں ہوسکتے۔“
” تب تو مجھ سے بڑی غلطی ہوئی۔“ فریدی نے ہاتھ ملتے ہوئے بے بسی سے کہا۔” کاش میں سار جنٹ حمید کوبھی یہاں لایا ہوتا۔“
سلیم نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولا۔” ابھی کچے ہو مسٹر جاسوس ۔“
” اُف میرے خدایا“ فریدی نے بوکھلا کر کہنا شروع کیا۔ لیکن تم نے ابھی میرے سامنے اقبالِ جرم کیاہے کہ تمقق قاتل ہو“
”ہکلاﺅ نہیں پیارے ۔“ سلیم بے ساختہ ہنستا ہو ابولا” لو میں ایک بار پھر اقبالِ جرم کرتا ہوں کہ میں نے ہی شوکت کو قتل کرنے یا کرانے کی کوشش کی تھی میں نے ہی نیپالی کوبھی قتل کیاتھا۔میں نے تم پربھی گولیاں برسائیں تھیں۔ لیکن پھر کیا؟ تم میرا کیا کرسکتے ہو میں ایک خطاب یافتہ خاندان کا فرد ہوں راج روپ نگر کا ہونے والا نواب۔ تمہاری بکواس پر کسے یقین آئےگا“
” بہت اچھے برخوردار“ فریدی نے ہنستے ہوئے کہا۔” بہت عقل مند ہو ۔لیکن واضح رہے کہ اب تم نے جو اقبالِ جرم کیا ہے وہ پاگل پروفیسر کے سامنے نہیں بلکہ محکمہ سراغرسانی کے انسپکٹر فریدی کے سامنے کیاہے۔“
”تو پھراس سے کیامیں ہزار مرتبہ اقبالِ جرم کر سکتا ہوں کیونکہ یہاں تمہارے اورمیرے سوا کون ہے کہو تو ایک بار پھر دوہرا دوں۔“سلیم نے قہقہہ لگا کر کہا۔
”بس بس کافی ہے“ فریدی نے جلی ہوئی سگریٹ کا ٹکرا پھینکتے ہوئے کہا” تم فریدی کو نہیں جانتے اادھر دیکھو اس الماری میں لیکن نہیں تمہیں نہیں دکھائی دیتا ٹھہرو میں موم بتی اٹھاتا ہوںدیکھو بیٹا سلیم یہ ایک بہت زےادہ طاقت ور ٹرانسمیٹر ہے اور ابھی حال ہی کی ایجادہے۔ایک مختصر سی بیٹری اسے چلانے کے لئے کافی ہوتی ہے کیاسمجھے اس کے ذریعے میری اور تمہاری آوازیں محکمہ سراغرسا نی دفتر تک پہنچ رہی ہونگیں اورا نکا باقاعدہ ریکارڈ لیا جا رہا ہو گا میں اچھی طرح جانتا تھا کہ تم معمولی ذہانت کے مجرم نہیں ہو۔

اس لئے میں نے پہلے ہی اس کا انتظام کر لیاتھااب کہو کون جیتا؟فریدی نے قہقہہ لگایا اور سلیم نڈھال ہوکر رہ گیا اسکے چہرے پر پسینے کی بوندیں تھیں اسے اپنا دل سر کے اس حصے میں دھڑکتا محسوس ہورہاتھا۔ جہاں چوٹ لگی تھی۔ لیکن اسکے ذہن نے ابھی تک شکست قبو ل نہیں کی تھی۔سگریٹ کا جلتا ہوا ٹکڑا اس کے قریب ہی پڑا تھا۔ اسنے فریدی کی نظر بچا کر ( جو نہایت اطمینان سے دور بین پر جھکا ہو اتھا۔)اسے پیر سے آہستہ آہستہ اپنی طرف کھسکانا شروع کیااب سگریٹ کا جلتا ہو حصہ رسی کے ایک بل سے لگا ہوا اسے آہستہ آہستہ جلا رہا تھاسلیم نے اپنے دونو ں پیر سمیٹ کر رسی کے سامنے کر لئے۔ رسی خشک تھی یا سلیم کی تقدیریاور ۔ آگ اپناکام کرہی تھی ۔ فریدی بد ستور دوربین پر جھکا ہو اتھا دفعتاً سلیم صوفے سمیت دوسری طرف پلٹ گیا۔ فریدی چونک کر اس کی طرف جھپٹا لیکن اس سے پہلے کہ حیرت زدہ فریدی کچھ کر سکے سلیم رسی کے بلوں سے آزاد ہوچکا تھا۔
فریدی اس پر ٹوٹ پڑا لیکن سیلم کو زیر کرنا آسان نہ تھا تھوڑی دیر بعد دونوں گتھے ہوئے ہانپ رہے تھے سلیم کو سست پا کر فریدی کو جیب سے پستول نکالنے کا موقع مل گیا۔ لیکن سلیم نے اس پھرتی کے ساتھ اس سے پستول چھین لیا جیسے وہ اس کا منتظر تھا اسی کش مکش میں پستول چل گیا فریدی نے چیخ ماری اور گرتے گرتے اس کا سر دوربین سے ٹکرا گیا وہ بالکل بے حس و حرکت زمین پر اوندھا پڑا تھا
سلیم کھڑا ہانپ رہا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیاکرےدفعتہ وہ ٹرانسمیٹر کے سامنے کھڑا ہو کر بری طرح کھانسنے لگا۔ ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے اس پر کھانسیوں کا دورہ پڑ اہو پھر بھرائی ہوئی آواز میں بولنے لگا۔
” میں انسپکٹر فریدی بول رہا ہوں ابھی سلیم میری گرفت سے نکل گیا تھا۔ کافی جدو جہد کے بعد میں نے اس کے پیر میں گولی مار دی اب وہ پھرمیری قید میں ہے میں اسے مقامی پولیس کے سپردکرنے جا رہا ہوں بقیہ رپورٹ کل آٹھ بجے صبح۔“
اب سلیم نے ٹرانسمیٹر کا تار بیٹری سے الگ کر کے اسے فرش پر پٹخ دیااس کے پرزے اِدھر ُادھر بکھر گئے
وہ تیزی سے سیڑھیاں طے کرتا ہوا نیچے اتر رہا تھا
انسپکٹر فریدی نے اپنی موت کی خبر شائع کرانے میں بڑی احتیاط سے کام لیا تھا۔راج روپ نگر کے جنگلوں میں دشمن سے مقا بلہ کرتے وقت اچانک اس کے ذہن میں یہ تد بیر آئی تھیوہ خواہ مخواہ اس طرح چیخ کربھاگا۔ جیسے وہ زخمی ہوگیا ہو۔ وہ ہسپتال گیا اور وہاں چیف انسپکٹر کو بلو اکر اسے کل حالات بتائے اور اس سے مدد مانگی یہ چیز مشکل نہ تھی۔چیف انسپکٹر نے پولیس کمشنر سے مشورہ کرکے پولیس ہسپتال کے انچارج کرنل تیواری سے سب معا ملے طے کرلیے۔ لیکن اسے یہ نہ بتایا گیا کہ یہ ڈرامہ کھیلنے کا مقصد کیا ہےسول ہسپتال سے خفیہ طریقہ پر ایک لاش حاصل کی گئی ۔ پھر اس پر انسپکٹر فریدی کا میک اپ کیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ سلیم دھوکہ کھاگیا۔ ان سب باتوں سے فرصت پانے کے بعد انسپکٹر فریدی نے بھیس بدل کر اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں ۔
تیسرے دن اچانک کرنل تیواری کا تبادلے کا حکم آگیااو ر اسے صرف اتنی ہی مہلت ملی کہ اس نے ڈاکٹر توصیف کو ایک خط لکھ دیا۔ انسپکٹر فریدی کو اب تک سلیم پر محض شبہ ہی شبہ تھااس کی تحقیقات کا رخ زیادہ تر پروفیسرہی کی طرف رہا اس سلسلے میں اسے اس بات کا بھی علم ہواکہ سلیم پروفیسر کو دھوکے میں رکھ کر اسے اپنا آلہ کاربنائے ہوئے ہے۔ پروفیسر کے متعلق اس نے ایک بالکل ہی نئی بات معلوم کی جس کی اطلاع سلیم کوبھی نہ تھی وہ یہ کہ پرو فیسر ناجائزطور پرکوکین حاصل کیا کرتا تھا جس طر یقہ سے کو کین اس تک پہنچا کرتی تھی وہ انتہائی دلچسپ تھا۔ اسے ایک ہفتہ کے استعمال کے لئے کو کین ملا کرتی تھی۔ کو کین فروشوں کے گروہ کا ایک آدمی ہرہفتے ایک پیکٹ کوکین لا کر پرانی کو ٹھی کے باغیچے میں چھپا دیا کرتا تھا۔وہیں اس کے دام بھی رکھے ہوئے مل جاتے تھے دو ایک بار اسے مالیوں نے ٹوکابھی لیکن اس نے انہیں یہ کہہ کر بہلاوا دیا کہ وہ دوا کےلئے بیر بہوٹی تلاش کر رہاہے۔ فریدی نے فی الحال اس گروہ کو پکڑنے کی کی کوشش نہ کی کیو نکہ اس کے سامنے اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ تھا۔ ڈاکٹر شوکت کے راج روپ نگر جانے سے ایک دن قبل ہی اس نے کو ٹھی کے ایک مالی کو بھاری رقم دے کر ملا لیا تھا۔ اس لئے کو ٹھی کے افراد کے متعلق سب کچھ جان لینے میں کوئی خاص دقت نہ ہوئی۔

آپریشن والی رات کو سارجنٹ حمید بھی وہاں آگیا فریدی نے اسے پروفیسر کو بہلا پھسلاکر مالی کے جھونپڑے تک لانے کے لئے تعینات کر دیااس کیلئے پوری اسکیم پہلے ہی مرتب ہو چکی تھی۔حمید نے پروفیسر کو کوکین فروشوں کے گروہ کے ایک نمائندے کی حیثیت سے ملاقات کی ، اور اسے کو کین دینے کا لالچ دلاکر مالی جھونپڑے تک لایا۔ یہاں اسے کو کین میں کوئی تیز قسم کی نشےلی چیز دی گئی جس کے اثر سے پروفیسر بہت جلد بے ہوش ہوگیااس کے بعد انسپکٹر فریدی نے اس کے کپڑے خود پہن لئے اور ٹرانسمیٹرکو گٹھڑی میں باندھ کر جھونپڑے سے نکل گیا۔ جھونپڑے کے باہر جس نے اچھل کود مچائی تھی و ہ انسپکٹر فریدی ہی تھا۔
اب فریدی کو گئے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا تو حمید کا دل گھبرانے لگا۔ اس نے سوچا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ پیش آگیا ہو ۔ہر چند کے فریدی نے اسے بے ہوش پروفیسر کو سوتا چھوڑ کر کہیں جانے کی اجازت نہ دی تھی۔لیکن اس کا دل نہ ماناوہ پرو فیسر کو سوتا چھوڑ کر پرانی کو ٹھی کی طرف روانہ ہو گیا۔مینار میں وہ اس وقت داخل ہو ا جب سلیم جا چکا تھا۔ ٹرانسمیٹر چور چور ہوکر فرش پر بکھرا پڑا تھااور فریدی ابھی تک اسی طرح پڑا تھا۔حمید بدقت تمام اپنی چیخ روک سکا۔اس نے دوڑ کر فریدی کو اٹھانے کی کوشش کی وہ بے ہوش تھا۔ بظاہر کہیں کوئی چوٹ نہ معلوم ہوتی تھی۔تھوڑی دیر کے بعد کراہ کر اس نے کر وٹ بدلی۔ حمید اسے ہلانے لگا وہ چونک کر اٹھ بیٹھا“
” تم “ اس نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔” وہ مردود کہاں گیا؟“
” کون “
” وہی سلیم “ فریدی نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔” افسوس ہاتھ آ کر نکل گیا۔“
پھر اس نے جلدی جلدی سارے واقعات بتا دئےے۔
” اس نے اپنی دانست میں مار ہی ڈالا تھا“ فریدی نے کہا” لیکن جیسے ہی اس نے گو لی چلائی ۔ میں پھر ایک بار اسے دھوکا دینے کی کوشش کی ۔ لیکن برا ہو اس دور بین کا سب کیا دھرا خاک میں مل گیا اگر میرا سر اس سے نہ ٹکرا جاتاتوپھر میں نے پالا مار لیا تھاارے اس ٹرانسمیٹرکو کیا ہوا توڑدیا کم بخت نے۔ ایسا دلیر مجرم آج تک میری نظروں سے نہیں گذرا“
” آئےے تو اسے تلاش کریں ۔“ حمید نے کہا۔
” پاگل ہوئے ہو ! اب تم اس کی گرد کو بھی نہیںپاسکتے۔ وہ معمولی ذہانت کا آدمی نہیں “ فریدی نے اٹھتے ہوئے کہا” دیکھوں تو آپریشن کیا رہا“
اس نے دور بین کے شیشے سے آنکھ لگا دی تھوڑی دیر تک خاموش رہا۔
”ارے “ و ہ چونک کر بولا” یہ پائپ کے سہارے دیوار پر کون چڑھ رہا ہے۔“
” سلیم اس کا کیا مطلب ارے لو وہ کھڑکی کے قریب پہنچ گیا۔ یہ اس نے جیب سے کیا چیز نکالیہیں یہ نلکی کیسیارے لو غضب وہ اس کی نلکی کو ہونٹوں میں دبا رہا ہے قتل قتل حمید اب ڈاکٹر شوکت اتنی خاموشی سے قتل ہوجائے گاکہ اس کے قریب کھڑی نرس کو بھی اس کی خبر نہ ہوگیاُف کیاکیا جائے جتنی دیر میں ہم وہاں پہنچےں گے وہ اپنا کام کر چکا ہوگاکم بخت پستول بھی تو اپنے ساتھ لیتا گیا۔“
” پستول میرے پاس ہے۔“ حمید نے کہا۔
” لیکن بے کار اتنی دور سے پستول کس کام کااوہ کیا کیاجائےاس کی نلکی میں وہ زہریلی سوئی ہے ابھی وہ ایک پھونک مارے گااور سوئی نلکی سے نکل کر ڈاکٹر شوکت کے جا لگے گیاف میرے خدا اب کیا ہوگا وہ شاید نشانہ لے رہا ہے اوہ ٹھیک یاد آگیا میں نے وہ رائفل نیچے دیکھی تھی۔ٹھہرو! میں ابھی آیا“ فریدی یہ کہہ کر دوڑتا ہوا نیچے چلا گیا واپسی پر اس کے ہاتھ میں وہی چھوٹی سی رائفل تھی۔
جو اس نے پروفسیر کے ہاتھوں میںدیکھی تھی۔ اس نے اسے کھو ل کر دیکھا ۔ اس کی میگزین مین کئی کارتوس باقی تھے۔
”ہٹو ہٹو۔ کھڑکی سے جلدی ہٹو اس نے کھڑکی سے نشانہ لیا بیمار کے کمرے سے آتی ہوئی روشنی میں سلیم کا سر صاف نظر آ رہا تھا فریدی نے رائفل چلادیسلیم اچھل کر ایک دھماکے کے ساتھ زمین پر آ رہا
” وہ مارا۔“ اس نے رائفل پھینک کر زینے کی طرف دوڑتے ہوئے کہا حمید بھی اس کے پیچھے تھا۔ یہ لوگ اس وقت پہنچے جب بیگم صاحبہ، نجمہ۔ ڈاکٹر توصیف اور کئی ملازمین وہاں اکٹھے ہو چکے تھے عورتوں کی چیخ پکار سن کر ڈاکٹر شوکت بھی نیچے آگیا تھا
فریدی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا” کہو ڈاکٹر آپریشن کا کیا رہا۔“شوکت چونک کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا
” تم “ اس نے منہ پھاڑ کر حیرت سے کہا
” ہاں ہاں میں بھو ت نہیں بتاﺅ آپریشن کیا کیا رہا۔“
” کامیاب “ شوکت نے بو کھلا کر کہا۔” لیکن لیکن“
” میں محض تمہارے لیے مرا تھا، میرے دوست اور یہ دیکھوآج جس نے تمہارے گلے میں پھندا ڈالا تھا تمہارے سامنے مردہ پڑا ہے۔“
اب سارے لوگ فریدی کی طرف متوجہ ہو گئے ۔
’ ’ آپ لوگ براہ کرم لاش کے پاس سے ہٹ جائیں“ فریدی نے کہا۔” اور حمید تم ڈاکٹر شوکت کی کار پرتھانے چلے جاﺅ۔“
” تم کون ہو“ بیگم صاحبہ گرج کر بولیں۔
” محترمہ میں محکمہ سراغرسا نی کا انسپکٹر ہوں ۔“فریدی نے کہا” میں سرکس والے نیپالی کے قاتل اور ڈاکٹر شوکت کی جان لینے کوشش کرنے والے کی لاش تھانے لے جانا چاہتا ہوں۔“
” نہ جانے تم کیا بک رہے ہو۔“ نجمہ نے آنسو پونچھتے ہوئے تیزی سے کہا۔
” جو کچھ میں بک رہا ہوں، اس کی وضاحت قانون کرے گا۔“
ایک ہفتے بعد نجمہ اور ڈاکٹر شوکت کوٹھی کے پائیں باغ میں چہل قدمی کر رہے تھے۔
”اف فوہ کس قدر شریر ہوتم نجمہ“ شوکت نے کہا” آخر بیچارے مالیوں کو تنگ کرنے کا کیا فائدہ؟ یہ کیاریاں جو تم نے بگاڑ دی ہیں مالی اس کا غصہ کس پر اتاریں گے“
” میں نے اس لئے بگاڑی ہیں یہ کیاریاں کہ میں تمہارا امتحان لینا چاہتی ہوں ۔“
” کیا مطلب “ ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
” یہی کہ تم ان کا آپریشن کر کے انہیں ٹھیک کر دوگے۔“نجمہ نے شوخی سے کہا۔
” انہیں تو نہیں لیکن شادی ہوجانے کے بعد تمہارا آپریشن کرکے تمہیں بندریا ضرور بنا دوں گا۔“
” شادی بہت خوب غالباً تم یہ سمجھتے ہو کہ میں سچ مچ تم سے شادی کرلوں گی۔“
” تم کرو یا نہ کرو۔ لیکن میں توکر ہی لوں گا“
” تو مجھے بندریا بنانے سے کیا فائدہکیوں نہ تمہارے لئے ایک بندریا پکڑوالی جائے۔آپریشن کی زحمت سے بچ جاﺅ گے۔“
” اچھا ٹھہرو بتاتا ہوں ہلو بھائی فریدی آو ¿ آو ¿ ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے۔“
فریدی اور حمید کار سے اتر رہے تھے۔

” نواب صاحب کا کیا حال ہے۔“ فریدی نے شوکت سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
” اچھے ہیں تمہیں یاد کر رہے تھے آو ¿ چلو اندر چلیں۔“
نواب صاحب گاو ¿ تکئےے سے ٹیک لگائے انگور کھا رہے تھے۔ فریدی کو دیکھ کر بولے
”آو ¿ آو ¿ میاں فریدی۔ میں آج تمہیں ہی یاد کر رہا تھامیں نے اس وقت تمہیں دیکھا تھا جب مجھے بولنے کی اجازت نہ تھی آج کل تو میرے بیٹے کا حکم مجھ پر چل رہا ہے۔“
نواب صاحب نے شوکت کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔
” آپ کو اچھا دیکھ کر مجھے انتہائی مسرت ہے۔“فریدی نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد نواب صاحب نے کہا۔” فریدی میاں تمہیں اس بات کا علم کیونکر ہوا تھا کہ شوکت میرا بیٹا ہے۔“
” میں داستان کا بقیہ حصہ آپکی زبانی سننا چاہتا تھا۔“ فریدی نے کہا۔
”نہیں بھئی پہلے تم بتاو ¿۔“نوا ب صاحب بولے
” میری کہانی زیادہ لمبی نہیں ہےصرف دو لفظوں میں ختم ہوجائے گیجب میں پہلی بار سلیم سے رپورٹر کے بھیس میں ملا تھااس وقت میں نے آپ کے والد ماجد کی تصویر دیکھ کر اندازہ لگایا تھا کہ اس کوٹھی کا کوئی فرد ڈاکٹر شوکت کو کیوں قتل کرناچاہتا ہےشوکت کی شکل ہو بہونوا ب صاحب مرحوم سے ملتی ہے۔ لیکن مجھے حیرت ہے کہ جس بات کا علم ڈاکٹر شوکت کونہیں تھا اسکا علم سلیم کو کیونکر ہوا۔“
” غالباً میں بے ہوشی کے دوران میں کچھ بک گیا ہوں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ سلیم زیادہ تر میرے قریب ہی رہتا تھافریدی میاں یہ ایک بہت ہی پر درد داستان ہے۔ میں تمہیں شروع سے سناتا ہوںشوکت کی ماں ہمارے خاندان کی نہ تھی۔ لیکن وہ کسی نچلے طبقے سے بھی تعلق نہ رکھتی تھی۔ ان میں صرف اتنی خرابی تھی کہ ان کے والدین ہماری طرح دولت مند نہ تھے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو بے حد چاہتے تھے لیکن والد صاحب مرحوم کے ڈر سے کھلم کھلا شادی نہ کر سکتے تھےلہٰذ ا ہم نے چھپ کر شادی کرلی ایک سال بعد شوکت پیدا ہوالیکن اس کی پیدائش کے چھ ماہ بعد ہی وہ ایک مہلک مرض میں مبتلا ہو گئیں ۔ اسی حالت میں وہ دوسال تک زندہ رہےں ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو جاگیر دارانہ ماحول سے الگ رکھ کر اعلیٰ تعلیم دلائیںوہ ایک رحم دل خاتون تھیںوہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرکے خدمت خلق کرے۔ یہ ان کا خیال تھا اور وہ بالکل درست تھا کہ جاگیر دارانہ ماحول میں پلے ہوئے بچے کے دل میں غریبوں کا درد قطعی نہیں ہو سکتا جب وہ دم توڑ رہیں تھیں تو انہوں نے مجھ سے وعدہ لے لیاتھا کہ اس وقت تک میں شوکت پر یہ بات ظاہر نہ کروں گاجب تک و ہ ان کی خواہش کے مطابق ایک اچھے کردار کا مالک نہ ہوجائےگا۔پھر انہوں نے شوکت کو سیتا دیوی کے سپرد کر دیا۔میں خفیہ طور پر سیتا دیوی کی مدد کیا کرتا تھاخدا جنت نصیب کرے اسے بڑی خوبیوں کی مالک تھی آخر کار اس نے شوکت کے لئے جان دے دی۔شوکت کی ماں کے انتقال کے بعد میرا دل ٹوٹ گیا اور پھر میں نے دوسری شادی نہیں کی اور دنیایہی سمجھتی رہی کہ میں ساری زندگی کنوارا ہی رہا۔“
نوا ب صاحب نے پھر شوکت اور نجمہ کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھ کر کہا” اب میری ز ندگی میں پھر سے بہار آگئی ہے اے خدا اے خدا “ ان کی آواز گلوگیر ہوگئی اور ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔
” فریدی میاں “ نوا ب صاحب بولے” اس سلسلے میں تمہیں جو پرےشانی اٹھانی پڑی ہیں ۔ انکا حال مجھے معلوم ہے بخدا میں تمہیں شوکت سے کم نہیں سمجھتا تم بھی مجھے اتنے عزیز ہو جتنے کہ شوکت اور نجمہ۔“
” بزرگانہ شفقت ہے آپکی۔“ فریدی نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا۔
” ہاں بھئی وہ بیچارے پروفیسر کاکیا ہوا کیا و ہ کسی طرح رہا نہیں ہوسکتا۔“ نوا ب صاحب بولے۔

” تا وقتیکہ کوکین فروشوں کا گروہ گرفتار نہ ہوجائے ضمانت بھی نہیں ہوسکتی۔“ فرید ی نے کہا۔” لیکن میں اسے بچانے کی حتی الامکان کوشش کروں گا ۔“
” اچھا بھئی اب تم لوگ جاکرچائے پیو ارے ہاں ایک بات تو بھول ہی گیااگلے مہینے شوکت اور نجمہ کی شادی ہو رہی ہے نواب صاحب نے نجمہ اور شوکت کو دیکھتے ہوئے کہا۔” ابھی سے کہے دیتا ہوں۔فریدی میاں کہ تمہیں اور حمید صاحب کو شادی سے ایک ہفتہ قبل ہی چھٹی لے کر یہاں آجانا پڑے گا۔“
” ضرور ضرور ۔“ فریدی نے دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔” مبارک ہو۔“نجمہ اور شوکت نے شرما کر سرجھکا لیا۔
تھوڑی دیر کے بعد چاروں ڈرائینگ روم میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
” بھئی فریدی تم کب شادی کر رہے ہو؟ڈاکٹر شوکت نے چائے کا گھو نٹ لے کر پیالی میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
” کس کی شادی۔“ فریدی مسکر اکر بولا۔
” اپنی بھئی۔“
” اوہ میری شادی“ فریدی نے ہنس کر کہا۔” سنو میاں شوکت اگر میری شادی ہوتی تو تمہاری کی نوبت ہی نہیں آتی۔“
” وہ کیسے؟“
” سیدھی سی بات ہےاگر میری شادی ہوگئی ہوتی تو میںبچوں کودودھ پلاتا یا سراغرسانی کرتامیرا ذاتی خیال ہے کہ کوئی شادی شدہ شخص کامیاب جاسوسی کر ہی نہیں سکتا۔“
” تب تومجھے ابھی سے استغفیٰ دینا چاہیے میں شادی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔“ حمید نے اتنی معصومیت سے کہاکہ سب ہنسنے لگے۔
” تو پھر کیا تم ساری زندگی کنوارے ہی رہوگے۔“ شوکت نے کہا۔
”ارادہ تو یہی ہے۔“ فریدی نے سگار سلگاتے ہوئے کہا۔
” بھئی تم بری طرح سگار پیتے ہو تمہارے پھیپھڑا بالکل سیاہ ہوگیاہو گا۔“ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
”اگر سگار بھی نہ پیوں تو پھر زندگی میں رہ ہی کیا جائے گا۔“
” تو یہ کہئے سگار ہی شریک زندگی ہے“ نجمہ ہنس کر بولی۔
حمید قہقہہ مار کر ہنسنے لگا بقیہ لوگ صرف مسکرا کر رہ گئے، حالانکہ یہ کوئی ایسا پر مزاق جملہ نہیں تھا۔ لیکن فریدی حمید کی عادات سے واقف تھا ۔ وہ عورتوں کے پھوہڑ جملوں پر خوب محظوظ ہو اکرتا تھا۔
” ہاں بھئی فریدی یہ تو بتاﺅ تم مرے کس طرح تھے۔مجھے یہ آج تک معلوم نہ سکا۔“ڈاکٹر شوکت نے پوچھا۔
” یہ ایک لمبی داستان ہے۔ لیکن میں مختصر بتاو ¿ںگا۔ مجھے شروع ہی سے سلیم پر شبہ تھا۔ لیکن میں نے شروع ہی میں ایک بنیادی غلطی کی تھی جس کی بناءپر مجھے مرنا پڑا۔ حلانکہ میں پہلے سے جانتا تھا کہ نیپالی کا قاتل ہم لوگوں کا پیچھا کر رہا ہے۔ اور ہم لوگوں کو اچھی طرح پہچانتا ہے۔اس سلسلے میں مجھ سے جو غلطی ہوئی وہ یہ تھی کہ میں سلیم سے رپورٹر کے بھیس میں ملا تھا۔وہ مجھے پہچان گیا اور اس نے واپسی پر مجھے ہوائی رائفل سے فائر کیا لیکن ناکام رہا اس نے رائفل پروفیسرکے ہاتھ میں تھمادی اور خود غائب ہوگیا ۔ پروفیسر کے متعلق تو تم جانتے ہو کہ وہ کچھ خبطی سا واقع ہوا ہے۔سلیم اسے اپنا آلہ کار بنائے ہوئے تھا۔ کئی سال کی بات ہے جب پروفیسر یہاں نہیں آیا تھا اچھا خاصا تھا وہ ان دنوں ایک تجربہ کر رہا تھا۔ اس نے چاند کاسفر کرنے کے لئے ایک غبارہ بنایا تھا۔ تجربے کے لئے اس نے پہلی بار اپنے اسسٹنٹ نعیم کو اس غبارے میں بٹھاکر اڑایا۔

شاید نعیم غبارے کو اتارنے کی تد بیربھول گیا تھا یا یہ کہ اس کی مشین خراب ہوگئی تھی،غبارہ پھر پروفیسر کیدانست میں زمین کی جانب نہ لوٹاحالانکہ اسے کافی چوٹیں آئی تھیں لیکن گاو ¿ں والوں کی تیمارداری اور دیکھ بال کی بناءپر بچ گیا۔ پرفیسر ان سب باتوں سے ناواقف تھا۔ وہ خود کو مجرم سمجھ رہا تھا۔ اسی پریشانی میں وہ قریب قریب پاگل ہوگیا۔ اس کے بعداس نے شہر کی سکونت ترک کردی اور راج روپ نگر میں آگیانعیم نے اسے خط لکھے جو اس کی پرانی قیام گاہ سے پھرتے پھراتے یہاں راج روپ نگر پہنچے۔ وہ خطوط کسی طرح سلیم کے ہاتھ لگ گئے اور اس طرح اسے ان واقعات کا علم ہوگیا۔اب اس نے پروفیسر پر اپنی واقفیت کی دھونس جما کر بلیک میل کرنا شروع کیا۔ مجھے ان سب باتوں کا علم اس وقت ہوا ۔ جب ایک رات چوروں کی طرح اس کوٹھی میں داخل ہوا اور سلیم کے کمرے کی تلاشی لی۔نعیم کے لکھے ہوئے خطوط مجھے اچانک مل گئے اور میں معاملات کی تہہ تک پہنچ گیا اور اسی وقت میںاس نتیجہ پر بھی پہنچا کہ مجھ پر گولی سلیم ہی نے چلائی تھی۔ کیونکہ پروفیسر تو اس رائفل کے استعمال سے ناواقف تھا میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ ہاں تو بات میرے مرنے کی تھی جب میں سلیم اور ڈاکٹر توصیف سے مل کر واپس جا رہاتھا سلیم نے راستے میںدھوکا دیکر مجھے روکا اور جھاڑیوں کی آڑ سے مجھ پر گولیاں چلانے لگامیں نے بھی فائر کرنے شروع کردئےے۔اسی دوران اچانک مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اورمیں نے تہیہ کرلیا کہ مجھے کسی نہ کسی طرح سے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ اب میرا وجود اس دنیا میں نہیں ، ورنہ ہوشیار مجرم ہاتھ آنے سے رہا۔لہٰذامیں نے ایک چیخ ماری اوربھاگ کر اپنی کار میںآیا اور شہر کی سمت چل پڑامیں سیدھا ہسپتال پہنچااور وہاں کمپاﺅنڈ میںموٹر سے اترتے وقت غش کھا کر گر پڑالوگوںنے مجھے اندر پہنچایامیں نے ڈاکٹر کو اپنی ساری اسکیم سے آگاہ کر دیا اور اپنے چیف کو بلوا بھیجا اسے بھی میں نے سب کچھ بتایا پھر وہاں سے میرے جنازے کا انتظام شروع ہواقسمت میرے ساتھ تھی۔ اس دن اتفاق سے ہسپتال میں ایک لاوارث مریض مر گیا تھا۔ میرے محکمہ کے لوگ اسے اسٹریچر پر ڈال کر اچھی طرح ڈھانک کرمیرے گھر لے آئے پڑوسی اور دوسرے جاننے والے اسے میری ہی لاش سمجھے۔میری موت کی خبر اسی دن شام کے اخبارات میں شائع ہوگئی تھی۔ پھر میں نے اسی رات حمید کوایک نیپالی کے بھیس میں ڈاکٹر توصیف کے پاس بھیجا اور اسے تاکید کرادی کہ وہ میری راج روپ نگر میں آمد کے بارے میں کسی سے کچھ نہ کہے۔لہٰذا یہ بات چھپی رہی کہ اس دن میں راج روپ نگر گیاتھا۔ اس طرح سلیم دھوکا کھا گیا۔ اسے اطمینان ہوگیا کہ اس پر شبہ کرنے والا اب اس دنیا سے چل بسا اور اب وہ نہایت آسانی کے ساتھ اپنا کام انجام دے سکے گا۔
” میں چاہتا تھا کہ تمہیں کسی طرح راج روپ نگر لے جاو ¿ں ۔ لہٰذا میں نے ڈاکٹر توصیف سے دوبارہ کہلوا بھیجا کہ وہ جلد از جلد تمہیں راج روپ نگر لے جائے جب تم وہاں پہنچے تو میں سائے کی طرح تمہارے ساتھ لگا رہاتھا۔تمہاری کار میں نے ہی خراب کی تھی۔ مجھے یہ پہلے ہی معلوم تھاکہ اس وقت کوٹھی میں کوئی کار مو جود نہیں ہے۔ لہٰذ ا میں نے یقین کر لیا کہ تم اس صورت میں پیدل ہی جاو ¿ گے۔مجھے یہ بھی یقین تھا کہ سلیم تمہیں نواب صاحب کے آپریشن سے پہلے ہی ختم کرنے کی کوشش کرے گا لہٰذا میں نے اسے موقع واردات ہی پر گرفتار کرنے کے لئے تمہیں پےدل لے جانا چاہا لیکن اس کمبخت نے وہ حربہ استعمال کیا جس کا مجھے گمان تک نہ تھا۔ تم واقعی قسمت کے اچھے تھے کہ وہ سوئی پروفیسر کے ہاتھ سے گر گئی اورتم بچ گئے ورنہ تم ختم ہوجاتے اور مجھے پتہ بھی نہ چلتا۔اس کے بعد تم قصبے میں چلے گئے اور میں ایک مالی کے خالی جھونپڑے میں بیٹھ کر پلان بناتا رہا۔یہ تو مجھے تمہاری زبانی معلوم ہوہی گیا تھا تم شام کو بھی پیدل ہی آو ¿ گے۔اسی دوران مجھے پروفیسر کے بارے میں کچھ اور باتےںبھی معلوم ہوئیں، مثلاً ایک تو یہی کہ وہ کوکین کھانے کا عادی ہے اور غیر قانونی طریقہ پر اسے حاصل کرتا ہے لو بھلا باتوں ہی باتوں میں بہکتا چلا جا رہا ہوں۔ باقی حالات بتانے سے کیا فائدہ ۔ وہ تو تم جانتے ہی ہوں گے۔بہر حال یہ تھی میرے مرنے کی داستان“
” خدا تمہاری مغفرت کرے۔“ڈاکٹر شوکت نے کہا۔
” تو فریدی بھائی اب تو آ پ کی ترقی ہو جائے گی دعوت میں ہمیں نہ بھو لئے گا ۔ “نجمہ نے مسکر کر کہا۔
” میں ترقی کب چا ہتا ہوں ۔ اگر ترقی ہو گئی تو مجھے شادی کرنی پڑجائے گی۔

کیو نکہ اس صورت میں مجھے آفس ہی میں بیٹھ کر مکھیاں مارنی پڑیں گی۔پھر دن بھر مکھیاں مارنے کے بعد تو مجھ سے مکھیاں نہ ماری جائےں گی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گھر پر مکھیاں آ نے کے لئے مجھے ایک عدد بیوی کا انتظام کرنا پڑے گاجو میرے بس کا روگ نہیں ۔“
” نجمہ شاید تم نہےں جانتیں کہ ہمارے فریدی صاحب سراغرسانی کا شوق پورا کرنے کےلئے اس محکمہ میں آئے ہیں ۔ “ ڈاکٹر شوکت نے کہا” ورنہ یہ خود کافی مالدار آدمی ہیں اور اتنے کنجوس ہیں کہ خدا کی پناہ۔“
” اچھا یہ میں آج ایک نئی خبر سن رہا ہوں کہ میں کنجوس ہوں کیوں بھائی میں کنجوس کیسے ہوں۔“
” شادی نہ کرنا کنجوسی نہیں تو اور کیا ہے۔“ نجمہ نے کہا۔
” اچھا بھائی حمید اب چلناچاہئے ورنہ یہ لوگ سچ مچ میری شادی نہ کرادیں۔“فریدی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
” ابھی بےٹھئے نا ایسی جلدی کیا ہے۔“ نجمہ بولی ۔
” نہیں بہن اب چلوں گا کئی ضروری کام ابھی تک ادھورے پڑے ہیں۔“
نجمہ اور شوکت دونوں کو کار تک پہنچانے آئے دونوں کے چلے جانے کے بعدشوکت بولا۔” ایسا حیرت انگیز آدمی میری نظر سے نہیں گذرا پتہ نہیں پتھر کا بنا ہے یا لوہے کا میںنے آج تک اسے یہ کہتے نہیں سنا کہ آج میں بہت تھکا ہوا ہوں۔“
” اس کے بر خلاف سارجنٹ حمید بالکل مرغی کا بچہ معلوم ہو تا ہے ۔‘ ‘ نجمہ ہنس کربولی ۔
”کیوں ۔“
” نہ جانے کیوں مجھے اسے دیکھ کر مرغی کے بچے یاد آجاتے ہیں۔“
” بہر حال آدمی خوش مزاج ہے اچھا آو ¿ اب اندر چلیں ۔ سردی تیز ہوتی جارہی ہے“






No comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.